اسو یا اسا۔۔۔۔۔۔ گھاس کی کٹائی
گلیات، مری، کشمیر، خطہ پوٹھوار، سوات، دیر، چترال، شمالی علاقہ جات سمیت ہزارہ بھر کے پہاڑی علاقوں میں گھاس کٹائی کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ یہ ثقافت ان علاقوں میں صدیوں سے رائج ہے۔ زمین ہموار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مشینوں کی بجائے درانتی کے ذریعے گھاس کی کٹائی کرتے ہیں۔ گھاس کی کٹائی کے اس سیزن کو "اسو” یا "اسا” کہتے ہیں۔ اسو یا اسوج ہکرمی سال جسے ہندی سال بھی کہا جاتا ہے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں پہاڑی علاقوں دیہاتوں کے رہنے والے اپنے مال مویشیوں کے لیے سال بھر کے لیے گھاس کاٹ کر جمع کر لیتے ہیں، جو مئی جون کے مہینے تک استعمال کرتے ہیں۔۔
زمین دار گھاس کٹائی سے پہلے لوہے کا کام کرنے والے کاری گروں سے اپنی درانتیاں بنوا لیتے ہیں یا تیز کروا لیتے ہیں۔ زمین داروں اور کاشت کاروں کے لیے یہ مہینہ سال بھر کے تمام مہینوں سے زیادہ محنت والا ہوتا ہے۔ اس مہینے میں گھر کے سبھی افراد اسو کے کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھروں میں کھانا پکانا، اسے "رکھ” تک لے جانا (رکھ۔پہاڑوں پر گھاس والی اس جگہ کو کہتے ہیں جو غیر ہموار ہوتی ہے اور قدرتی طور پر اس میں ایسی گھاس اگتی ہے جو جانور شوق سے کھاتے ہیں اور وہ ان کے لیے مفید بھی ہوتی ہے )، وہاں سے گھاس کا "گڈا” اٹھا کر گھر تک لانا، گھاس کاٹنے والوں کے لیے چائے پانی کا بندوبست کرنا وغیرہ سارے گھر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس میں عورتیں اور بچے بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
"رکھ” کیونکہ بستی سے کچھ فاصلے پر ہوتی ہے اس لیے اہل خانہ چائے، کھانا عموما بچوں کے ہاتھ وہیں بھیج دیتے ہیں۔ رکھ میں بیٹھ کر کھانا کھانے، لسی یا چائے پینے ، چائے کے ساتھ پکوڑے کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
گھاس کاٹتے والے ہر شخص کو گھاس کاٹتے ہوئے چوکنا رہنا پڑتا ہے مثلاً تیز درانتی سے اس کا ہاتھ کٹ سکتا ہے، کسی بھی زہریلے کیڑے یا سانپ سے اس کا پالا کسی بھی وقت پڑ سکتا ہے۔ بعض جگہوں پر کانٹے زیادہ ہوتے ہیں اور انگلیوں میں کوئی کانٹا چبھ سکتا ہے۔ اس لیے گھاس کاٹنے والے ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں۔
غیر ہموار اور خطرناک پہاڑوں سے گھاس کاٹتے ہوئے کھائی میں گرنے کا بھی خطرہ موجود رہتا ہے۔ گھاس کاٹنے والوں کی جیب میں سوئی، سنی پلاسٹ یا لیر (زخم باندھنے کا کپڑا) وائی (لوہے کا چھوٹا اوزار جس سے درانتیاں تیز کی جاتی ہیں) وغیرہ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ البتہ زہریلے کیڑوں یا سانپ سے کاٹنے کے لیے کوئی فرسٹ ایڈ ان کے پاس موجود نہیں ہوتی، جس کے لیے ہنگامی طور پر مریض کو ہسپتال پہنچانا پڑتا ہے۔ گھاس کاٹتے ہوئے درانتی کھنڈی (کند) ہونے کی صورت میں زمیندار وہیں رکھ میں بیٹھ کر وائی سے اپنی درانتی تیز کر لیتے ہیں۔ گھاس کاٹنے والے بعض اوقات مقابلے میں آ کر گھاس کاٹتے ہیں اور ایک دوسرے کو ہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بعض جگہوں پر گاؤں کے سبھی لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے گھاس کاٹنے آ جاتے ہیں جسے "لیتری” کا نام دیا جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن اور کشمیر کے بعض علاقوں میں لیتری پر ڈھول باجے والے بھی بلائے جاتے ہیں، جو گھاس کاٹنے والوں کے لیے تفریح مہیا کرتے ہیں اور گھاس کاٹنے والے ان ڈھول باجوں کی مسحور کن دھنوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گھاس کاٹتے رہتے ہیں۔ لیتری کے دوران کھانے کے لیے دیسی گھی کا خاص استعمال ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں سفید ابلے ہوئے چاولوں پر شکر اور دیسی گھی ڈال کر لیتری والوں کو کھلایا جاتا ہے۔
گھاس کاٹنے کے بعد خشک ہونے پر دوسرے یا تیسرے روز اس خشک گھاس کی گڈیاں بنائی جاتی ہیں۔ گھاس کی گڈیوں کو اپنے گھروں کے قریب لا کر ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے جسے "گھاڑا” کہا جاتا ہے۔ گھاڑا بنانا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے گاؤں ماہر اور تجربہ کار شخص کی مدد لی جاتی ہے. خاص بات یہ ہوتی ہے کہ گھاڑا اس تکنیک سے بنایا جاتا ہے کہ شدید اور طویل ترین بارش اور برف باری میں بھی اس میں پانی نہیں جاتا اور گھاس محفوظ رہتی ہے۔ موسم سرما میں جب کوہسار برف کی سفید چادر اوڑھ لیتے ہیں اور ذرائع آمد و رفت بھی مفقود ہو جاتے ہیں تو یہی جمع شدہ گھاس مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال میں آتی ہے۔
(منور، کسالہ)