مہمان کالم ۔۔۔ "اردو کے لیے ایک دبائیے”
اُردو کے لیے ایک دبائیے
ہمارے عزیز بھائی اقبال عبدالرحمٰن مانڈویا نے فیس بک پر اپنی محفل ’عروس البلاد کراچی‘ میں ایک مکالماتی قصہ تحریر فرمایا۔ عنوان تھا: ’’اُردو کے لیے ایک دبائیے‘‘۔ مکالمات اتنے دلچسپ تھے کہ یہ قصہ تمام سماجی ذرائع ابلاغ پر بڑی تیزی سے ’وبائی‘ (وائرل) ہوگیا، چھوت سے لگنے والی کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے کو چھوتا ہوا سیکڑوں ہزاروں کو ’چُھوا چُھو‘ کرگیا۔ ہمارے قارئین اور ہمارے احباب میں سے جس جس کو یہ قصہ موصول ہوا سب نے ہمیں ارسال کیا۔ تمام احباب کا شکریہ کہ اُن کی اِس محبت کے بوجھ سے ہم ’کَلٹی‘ ہوتے ہوتے بچے۔
’کَلٹی‘کی کہانی پھر سہی۔ ’موضوعِ امروز‘ (Talk of the day) تو اقبال بھائی کا قصہ ہے۔ محترم اقبال اے رحمٰن لکھتے ہیں:
ایک مقامی بنک کے معلومات نمبر پر فون کیا۔ پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائے گی۔ پھر کہا گیا کہ اردو کے لیے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا۔ فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے:
“?This is Kamran, how can I help you”
ہم نے ان سے کہا: ’’میاں صاحبزادے! ہم نے تو ’اُردو کے لیے ایک دبائیے‘ پر عمل کیا ہے، اس کے باوجود یہ انگریزی؟‘‘ فرمانے لگے: ’’جی بولیے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’ بولتے تو جانور ہیں، انسان تو کہتا ہے‘‘۔ جواباً ارشاد ہوا؛ ’’جی کہیے!‘‘ ہم نے کہا: ’’ہم کہے دیتے ہیں، مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہیے تھا، فرمائیے!‘‘ اب وہ پریشان ہوگئے۔ کہنے لگے: ’’سوری، فرمائیے کیا کمپلینٹ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’ایک تو یہ کہ ’سوری‘ نہیں ’معذرت‘ سننا چاہیں گے، اس لیے کہ ’اُردو کے لیے ایک‘ دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ ’کمپلینٹ‘ نہیں ’شکایت‘۔ کیوں کہ ہم نے’اُردو کے لیے ایک‘ دبایا ہے‘‘۔ اب تو وہ سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا: ’’سر میں سمجھ گیا۔ آپ شکایت بتائیں‘‘۔ ہم نے کہا: ’’سر نہیں جناب، اس لیے کہ ’اُردو کے لیے ایک دبانے‘ کا یہی تقاضا ہے‘‘۔ شکایت سننے کے بعد کہا: ’’جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے۔ اسے کنسرنڈ ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا: ’’کیا؟‘‘ تو واقعتاً بوکھلا گئے۔ ہم نے کہا: ’’شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبے تک پہنچانی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اُردو کے لیے ایک دبایا ہے‘‘۔کہنے لگے: ’’جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کررہا ہوں۔ آپ نے اُردو کے لیے ایک نہیں دبایا ہمارا گلا دبایا ہے‘‘۔
اقبال صاحب کی تحریر تو آگے بھی چلتی ہے، جس میں وہ صاحبزادے کو ’سیٹ‘ کے بجائے ’نشست‘ سے اُٹھنے کی تلقین کر رہے ہیں، مگر ہم یہیں بس کرتے ہیں کیوں کہ اوپر کا آخری فقرہ ہی ’حاصلِ مکالمہ‘ ہے۔ کالم نگار کی رائے میں اس مکالمے پر اقبال بھائی کو اقبالؔ کا مصرع پڑھتے ہوئے صاحبزادے کو یاد دلانا چاہیے تھا کہ ’’ہم نے نہیں، ’گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا‘۔‘‘
انگریزی ذریعۂ تعلیم نے بچوں کا گلا اس زور سے گھونٹا ہے کہ اب ہمارے خوش گفتار اور ’اُردو گفتار‘ گھرانوں کے بچوں کے حلق سے بھی اُردو کی صدا نہیں نکلتی۔ پلنگ کے پائے سے گھٹنا ٹکرائے اور چوٹ لگ جائے تب بھی منہ سے ’’اُف‘‘ کی جگہ ’’آؤچ‘‘ ہی نکلتا ہے۔
بنکوں پر بس نہیں، عوامی خدمت کے جتنے ادارے اپنے صارفین کو فون پر فریاد کی سہولت فراہم کرتے ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ ’اُردو کے لیے ایک دبائیے‘۔ مگر کسی کے ہاں اُردو کے لیے ایک دبانے پر اُردو نہیں بولی جاتی۔ اُردو کا گلا گھونٹتے ہوئے یہی صدا آتی ہے کہ “?How can I help you” لطف یہ کہ اگر آپ انگریزی کے لیے”2“ دبائیں تب بھی یہی صدا آتی ہے، مگر اس کے بعد ملاوٹ سے پاک خالص انگریزی بولی جاتی ہے۔ اب ان مخلصوں سے کون پوچھے؟ اقبال بھائی ہی پوچھیں تو پوچھیں کہ ’انگریزی سے اتنا خلوص کیوں؟‘
مخلص تو ہمارے قومی ادارے قومی زبان سے بھی ہوں گے۔ حُسنِ ظن یہی کہتا ہے۔ مگر اُردو کے الفاظ کو بے دخل کر کے اُن کی جگہ ناروا انگریزی الفاظ ٹھونسنے کا رواج صرف اس وجہ سے پڑا کہ تمام تعلیمی اداروں کو انگریزی ذریعۂ تعلیم (English medium) اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ہم جتنی بار یہ کہتے ہیں کہ اُردو کی چُول میں انگریزی کے گُٹکے نہ ٹھونکیے، اُتنی بار معترضین کا منہ بند کرنے کے لیے بتانا پڑتا ہے کہ اُردو نے اپنی فطری فراخ دلی سے جن انگریزی الفاظ کو قبول کرلیا ہے، اُن پر کسی کو اعتراض نہیں۔ خود اقبال بھائی کی محولہ بالا تحریر میں استعمال ہونے والے الفاظ ’’بنک، نمبر، فون، کال، ریکارڈ‘‘ وغیرہ اب اُردو ہی کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ کسی انگریزی لفظ کے اُردو میں جذب ہو جانے کی آسان سی پہچان یہ ہے کہ ایسے الفاظ کی جمع اُردو قاعدے کے مطابق بنائی جاتی ہے۔ ان الفاظ سے بننے والی تراکیب بھی اُردو کی تراکیب کی طرح بنتی ہیں۔ اسم جمع کے طور پر ہمارے ہاں’بنکوں، مشینوں، کالیں اور نمبروں‘ وغیرہ بولنا عام ہے۔
مثال: ’’بنک دولت پاکستان نے تمام بنکوں کو ہدایت کی ہے کہ عید کی تعطیلات میں خودکار مشینوں پر رقم کی فراہمی یقینی بنائیں۔‘‘
’’خدمت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے صارفین کی کالیں ریکارڈ کی جاتی ہیں‘‘۔
’’میں نے ایک ایک کر کے تمام نمبروں پر فون کر لیا، مگر سب نمبروں کو مصروف پایا‘‘۔ وغیرہ وغیرہ
اسی طرح فون کرنا، فون اُٹھانا، فون سننا، فون آنا، فون بجنا یا ریکارڈ کرنا، ریکارڈ رکھنا اور ریکارڈ تلف کر دینا ، اُردو کی تراکیب ہیں۔
معیاری تجارتی ادارے اپنی خدمات کا معیار بلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صارفین کو فون پر خدمات فراہم کرنے والے عملے کو ’فون پر گفتگو کے آداب‘ (Telephone courtesy) کی تربیت دی جاتی ہے۔ اگر عملے کو ’اُردو میں گفتگو کے آداب‘ بھی سکھا دیے جائیں تو کیا بُرا ہے؟ اس سے اِن اداروں کی اچھائی اور نیک نامی میں اضافہ ہی ہوگا۔ اقبال بھائی کا ’مکالمہ‘ ان اداروں کے اربابِ اختیار تک بھی یقیناً پہنچ ہی چکا ہو گا۔ یہ قصہ پڑھ کر ہنس لینے کے بعد انھیں اُس شکایت کا سنجیدگی سے ازالہ کرنا چاہیے، جو پیش کردہ مکالمات میں پوشیدہ ہے۔ یعنی ’اُردو کے لیے ایک دبانے‘ پر عملے کو اُردو ہی بولنا چاہیے۔ دیکھیے کس قدر شائستہ، نفیس اور مہذب اندازِ گفتگو ہوگا اگر صارف کا فون اُٹھانے والا مصروف لڑکا یوں کہے: (خالی جگہوں […] کو صارف کے مکالمات سے پُر کر لیجے)
’’السلام علیکم۔ میرا نام کامران ہے۔ فرمائیے میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ … آپ کی شکایت درج کر لی گئی ہے اور متعلقہ شعبے کو بھیجی جارہی ہے، شکایت نمبر ۲۲ ہے۔ اور کوئی خدمت؟… آپ کا بھی شکریہ، آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا۔ خوش رہیے۔ خدا حافظ‘‘۔
(مغرب سے سیکھا ہوا فقرہ:’اپنا خیال رکھیے گا، غیر اخلاقی مشورہ ہے۔ ہماری تہذیب دوسروں کا خیال رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔)
ہنسی کا باعث بننے والے تمام طربیہ فقروں کا اصل سبب ایک قومی المیہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موزوں فرد موزوں مقام پر نہیں۔
اداکارائیں بن سنور کے، سو سو سنگھار کرکے ٹیلی وژن کے پروگراموں میں ’تبلیغِ دین‘ کر رہی ہیں اور علمائے کرام اپنے اپنے حجروں میں پردہ نشیں ہیں۔ اساتذہ سڑکوں پر نعرے مار رہے ہیں اور قوم کے بچوں کے لیے نصاب سازی کا کام غیر ملکی امدادی ادارے کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے میدانِ جنگ سجا رکھا ہے اور سپاہی ریاست کے میدان میں کود کود کر ’دادِ سیاست‘ دے رہے ہیں، کُوئے صحافت کے نمائندوں کو بلا بلا کر، کلف دار وردی پہنے، حالاتِ حاضرہ کو للکار رہے ہیں۔ پولیس چوری ڈکیتی میں مصروف ہے اور شہری ڈکیتوں کو گولی مار رہے ہیں۔ جو کام اللہ نے ہمیں تفویض کیے تھے اُنھیں ہم واپس اللہ کے سپرد کر رہے ہیں۔
مثلاً آج جمعے کے اجتماعات میں سُن لیجے گا کہ یا اللہ ہمیں پنج وقتہ نمازی بنا، یا اللہ ہمیں نیک انسان بنا، یا اللہ پاکستان کی حفاظت فرما، یا اللہ کشمیر اور فلسطین کے مجبور مسلمانوں کو ظالموں سے نجات دلا وغیرہ وغیرہ۔ جو کام اللہ کے کرنے کے ہیں وہ ہم نے اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ چناں چہ کسی کو ’شہید‘ قرار دے کر جنت میں بھیج رہے ہیں اور کسی کو ’کافر‘ ٹھیرا کر دوزخ میں۔ بھائیو! ایسا نہ کرو۔ مثل مشہور ہے کہ ’’جس کا کام اُسی کو ساجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘۔
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)