top header add
kohsar adart

انجمن فروغ پہاڑی زبان کے زیر اہتمام جناب قیصر مسعود کے اعزاز میں نشست کا انعقاد

قیصر مسعود کا تعلق اوسیاہ سے ہے

 

انجمن فروغ پہاڑی زبان کے زیر اہتمام مسلم ٹاؤن راولپنڈی میں ایڈیٹر کوہسار نیوز راشد عباسی کی رہائش گاہ پر معروف شاعر جناب قیصر مسعود (اوسیاہ، حال مقیم قطر) اور کراچی سے تشریف لانے والے پہاڑی اور اردو کے سینئر قلم کار محبت حسین اعوان (بیروٹ، سرکل بکوٹ) کے اعزاز میں ایک نشست کا انعقاد ہوا۔

نشست میں مری سے پروفیسر اشفاق کلیم عباسی، جناب محمد آصف مرزا، محترم امجد بٹ اور دیگر کئی اہل علم تشریف لائے۔

صحافت سے تعلق رکھنے والے احباب میں سجاد عباسی (گروپ ایڈیٹر امت)، امتیاز شاہین عباسی، سرکل بکوٹ اور اسد اللہ غالب، غالب نیوز نیٹ ورک، شامل تھے۔ ان کے علاوہ ترمٹھیاں سے بدیع الزمان عباسی، بیروٹ سے محمد نصیر عباسی اور بھوربن سے شفاقت اعجاز عباسی بھی تشریف لائے۔

مہمان اعزاز جناب قیصر مسعود نے اپنے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ ان کے والدین شعبہ تدریس سے وابستہ تھے۔ میٹرک انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ سے کیا۔ مقامی طور پر گورنمنٹ ڈگری کالج مری تو موجود تھا لیکن عام تاثر یہ تھا کہ معیار تعلیم اچھا نہیں ہے اور طالب علم بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ، اس لیے والدین نے گورڈن کالج راولپنڈی میں ایف ایس سی میں داخلہ کروا دیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ قیصر مسعود میڈیکل ڈاکٹر بنے۔ لیکن ایف ایس سی کے دوران لٹریری سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری اور کالج میگزین کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہونے کے بعد قیصر مسعود کی ادبی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں اور انھوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال سے اردو میں ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں وہ بھی شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ پاکستان میں مختلف کالجوں میں پڑھانے کے بعد قطر چلے گئے اور گزشتہ کئی سالوں سے وہاں بھی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ تخلیق شعر کا عمل سکول کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا۔ کالج کے زمانے میں انھیں شعری اوزان کا بھرپور ادراک تھا اور کالج میگزین میں شائع ہونے والی ایک پروفیسر صاحب کی غزل پر اوزان کے حوالے سے سوال کرنے پر وہ پروفیسر صاحب سیخ پا بھی ہوئے تھے لیکن بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ وہ غزل عروضی لحاظ سے واقعی کمزور تھی۔

قطر میں ادبی ماحول کے حوالے سے جناب قیصر مسعود نے بتایا کہ وہاں پر اعلی پائے کے شعراء موجود ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور خلیجی ممالک سے بھی شعراء ادباء تشریف لاتے رہتے ہیں اور سالانہ عالمی مشاعرہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ شعراء اپنے طور پر بھی نجی محافل کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔

اوسیاہ جیسے پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے ملکہ کوہسار مری کے نہایت خوب صورت علاقے میں شعراء ادباء کے فقدان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جناب قیصر مسعود نے کہا کہ ایک تو کمرشلزم کی یلغار نے تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ وہ احباب جو شعر و سخن کا ذوق رکھتے ہیں انھوں نے بھی دیہی علاقوں میں کبھی کسی تقریب کے انعقاد کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں کے دورے کر کے اساتذہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے، طلبا و طالبات کے لیے بزم ادب کا احیاء ہو۔ مختلف سکولوں میں ادبی تقاریب منعقد کی جائیں اور طلبا و طالبات کو شعر و ادب کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔

جناب قیصر مسعود نے کوہسار کے اہل قلم سے درخواست کی کہ وہ اس طرح کی نشستوں کا انعقاد کوہسار کے مختلف علاقوں میں کریں تاکہ مقامی لوگوں میں بھی ادبی ذوق پروان چڑھے۔

پہاڑی زبان میں ادبی کام کے معیار اور رفتار کار پر جناب قیصر مسعود نے انجمن فروغ پہاڑی زبان کی ٹیم کو ہدیہ تبریک و تحسین پیش کیا اور امید ظاہر کہ اس ضمن میں عام لوگ بھی جلد اس تحریک کا حصہ بن کر اپنی ماں بولی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

پروفیسر اشفاق کلیم عباسی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ پیشتر تک ان کا جناب قیصر مسعود سے تعارف ہی نہیں تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوہسار کے اہل قلم کو مربوط کرنا بے حد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ جناب قیصر مسعود جیسے پختہ کار شاعر کی کوہسار میں موجودگی اس علاقے کے لیے باعث فخر و اعزاز ہے۔ انھوں نے جناب قیصر مسعود سے مکمل اتفاق کیا کہ کوہسار میں ادبی تقاریب کے انعقاد اور سکولوں میں ادبی سرگرمیوں کے احیاء سے ادبی ذوق کی آبیاری ہو گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More