top header add
kohsar adart

بنگلہ دیش میں کھیل سادہ نہیں پیچیدہ ہے

تحریر : راشد عباسی

بنگلہ دیش میں کھیل سادہ نہیں پیچیدہ ہے

بنگلہ دیش کی صورت حال کا تجزیہ کرنے کے لیے تاریخ کا علم، سامراجی طاقتوں کے منصوبوں کی آگاہی، جیو پولیٹیکل معاملات پر گہری نظر اور تعصب اور تنگ نظری کے بجائے ہمدردانہ رویہ ضروری ہے۔

معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں، جتنے کہ نظر آ رہے ہیں۔ تمام ترقی پذیر ممالک کے ساتھ بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ ان کے تحفظ کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر ممالک کے مابین دوستیاں انہی مفادات پر استوار ہوتی ہیں۔

بنگلہ دیش کے ساتھ چین کے مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے وہ ان کی انفراسٹرکچر کی ترقی میں ان کے ساتھ گزشتہ کئی برس سے تعاون کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشی میدان میں باہمی تعاون کے ضمن میں تجارت اور سرمایہ کاری کے کئی معاہدے ہوئے۔ فوجی تعاون اور ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ امریکہ اور بھارت کے تسلط کو کمزور کیا جائے۔

ہندوستان اس خطے میں اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اس کو بنگلہ دیش اور چین کے تعاون سے ہونے والی بنگلہ دیش کی معاشی ترقی بری طرح کھٹکتی ہے۔ ہندوستان بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو ختم کر کے خود بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

بنگلہ دیش کے ساتھ امریکی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ چین بنگلہ دیش تعاون ان کے مفادات کے لیے خطرہ بنے۔ وہ ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق، جدید تعلیم، اچھی حکمرانی وغیرہ جیسے نعرے لگا کر تیسری دنیا کے ممالک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کام کرتا ہے۔ ان کے لیے اسلام ایک نظام کے طور پر خطرہ ہے، اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ مسائل میں الجھائے رکھیں۔ وہ شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے ناموں کے استعمال سے اسلام کے حقیقی فروغ کو روکنے اور فرقوں اور مسالک کے فروغ کے لیے ڈالرز کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ آج کل وہ بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے لیے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں تاکہ چین کی بالا دستی کی راہ روکی جا سکے۔


روس کے اثر و رسوخ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنگلہ دیش اور روس کا باہمی تعاون کافی سالوں سے جاری ہے۔ فوجی تربیت اور ہتھیاروں کی فروخت کے بھی معاہدے ہوئے۔ روس نہیں چاہتا کہ امریکی اثر و رسوخ خطے کو خطرات سے دوچار کرے۔ اس لیے وہ بنگلہ دیش کی آزادانہ حیثیت اور خود مختاری کو قائم رکھنے میں اس کی پشت پر کھڑا ہے۔

اگر درج بالا معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی حالیہ برسوں میں ہونے والی ہوش ربا معاشی ترقی سے نالاں طاقتیں کوئی بڑا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے بہ ظاہر نظر آ رہے ہیں۔ شیخ مجیب کے مجسمے گرانے اور اس کی توہین و تذلیل کا عمل کسی بڑے طوفان کی نشان دہی کر رہا ہے۔

راشد عباسی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More