top header add
kohsar adart

ابلیس کی عرضداشت …… ترجمہ قاضی شعیب

کلام اقبال از بال جبریل

کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے
پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک!

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں ، خرد پختہ و چالاک!

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک!

تجھ کو نہیں معلوم کہ حورانِ بہشتی
ویرانئ جنت کے تصور سے ہیں غم ناک؟

جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تۂ افلاک!

1: ابلیس نے اللہ پاک سے یہ عرض کیا کہ اے خدا!
اگرچہ تو نے آدم کو مٹی سے بنایا تھا۔ لیکن اب اس میں ناری عنصر اس قدر غالب ہوچکا ہے کہ اس پر خاکی ہونے کا اطلاق درست نہیں ہے۔ طرزِ عمل کے لحاظ سے بالکل آتشیں مخلوق معلوم ہوتا ہے یعنی اس کے افعال شیطانی ہوگئے ہیں۔

2: قلب ماہیت ہوجانے کے بعد اس کی حالت یہ ہے کہ اس کی روح تو بہت ضعیف اور ناتواں ہوگئی ہے، لیکن جسم نہایت فربہ اور تنومند ہوگیا ہے۔ مادیت کا غلبہ ہے اور وہ اپنی ساری توجہ لباس اور آرائش ظاہری پر مبذول کررہا ہے
وہ تقوی اور پاکیزگی کی طرف سے بالکل غافل ہے۔ لیکن اس نے عقل و خرد میں بہت ترقی کرلی ہے۔

3: مشرقی مذاہب جن باتوں کو مذموم قرار دیتے ہیں۔ مغربی اقوام ان کو قابل تحسین سمجھتی ہیں۔
مثلاً مشرقی اقوام، دروغ بانی، مکر و فریب، اور عیاری کو بہت برا جانتی ہیں۔ لیکن مغرب میں یہ تمام عیوب "آرٹ” فن کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ اور دنیائے سیاست میں ان برائیوں کو "ڈپلومیسی” کے شاندار لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

4: چونکہ بنی آدم نے نیکی اور بدی کے ان امتیازات کو جو شریعت نے قائم کئے تھے، یکسر مٹا دیا ہے۔ آج ہر برائی اور بدی، نیکی اور بھلائی کا قالب اختیار کرچکی ہے۔ سود، جوّا، شراب، زنا، سب داخلِ فیشن ہوچکے ہیں۔ اس لئے حورانِ بہشتی بہت رنجیدہ ہیں۔ کہ جب کوئی شخص بھی نیکی نہیں کرے گا تو جنت یقیناً ویران ہو جائے گی بدکار تو اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اور نکو کار کوئی نظر نہیں آتا تو اسکا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ دوزخ آباد، اور جنت سنسان ہو جائے گا۔

5: پہلے زمانہ میں میری اولاد جمہور (عوام) کو گمراہ کرنے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن اب حالات اسقدر دگرگوں ہوگئے ہیں کہ یہ معزز پیشہ، اربابِ سیاست نے اختیار کرلیا ہے۔ اس لئے اے خدا! میں تجھ سے بادب درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے کوئی اور کام عطا کردے تاکہ میں اپنی زندگی بیکار بسر نہ کروں۔ دنیا والوں کو تو اب مطلق میری ضرورت نہیں ہے۔

بالِ جبریل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More