
حکومت نے اخراجات کم کیے نہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا، شاہد خاقان
حکومت نے اخراجات کم کیے نہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا، شاہد خاقان
اسلام آباد: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ پاس کیا گیا، حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے تھی، اگلے پانچ دس سال بھی بہتری کا کوئی امکان نہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور سینئر سیاست دان شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم کس قسم کی حکومت چلارہے ہیں؟ ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخرجات کم نہیں کریں گے لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیکڑوں ارب کے سگریٹ بنتے ہیں جس کی چوری کھلم کھلا ہورہی ہے، کیا ایف بی آر نہیں جانتا ملک میں کتنے سگریٹ استعمال ہورہے ہیں اور کتنے پر وہ ٹیکس اکٹھا کررہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ سگریٹ بنانے والوں سے بھی ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتے؟
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 2018ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے جب فاٹا کا انضمام ہوا تھا تو وہاں موجود انڈسٹریز کو 5 سال ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی جو پہلے سے وہاں موجود تھیں تاکہ وہ اپنا بندوبست کرلیں، یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور بغیر ڈیوٹی کے فاٹا میں مال بناتی ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ وہاں موجود انڈسٹریز فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں فاٹا میں فیکٹریاں فاٹا کے عوام کو فائدہ نہیں دیتیں، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اس پر ٹیکس لگایا جائے کیوں کہ یہ فیکٹریاں فاٹا کے عوام نہیں لگاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں طاقت ور لوگ موجود ہیں، باہر سے لوگوں نے وہاں انڈسٹریز لگائی ہوئی ہیں اور آج انہوں نے حکومت کو بلیک میل کرکے ایک بار پھر ٹیکس استثنیٰ حاصل کرلیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کا استحصال کرنے کا نہیں کہا، آئی ایم ایف نے کہا زرعی اور پراپرٹی ٹیکس لگائیں وہاں استثنیٰ دیا گیا، آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا 500 ارب روپے کی ترقیاتی اسکیمیں منظورکریں، پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ سود کی ادائیگی ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ بدترین بجٹ ہے، ملک کی معیشت رہے گی یا بجٹ رہے گا، حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 25 فیصد ہیں، تیس ہزار ارب میں سے پانچ سو ارب روپے عوام کے لیے ہیں، سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا ہے، دودھ، خیراتی اسپتال اور ادویات پر بھی ٹیکس لگا دیا مگر ڈیزل کی اسمگلنگ کو کوئی نہیں چھیڑے گا، مہنگائی میں پسے ہوئے لوگوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا، آدھی آمدنی حکومت لے جائے گی یہ ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت سارا بوجھ اٹھاتی ہے۔