کوہسار کے باسیو ! آپ نے کبھی گیس جلایا؟
اوسیاہ مری سے حبیب عزیز اپنے دلکش اسلوب میں ماضی کی راکھ کریدتے ہیں
حبیب عزیز …صاحب تحریر
بہت وقت پہلے شائد ایک صدی پہلے ہم اہل کوہسار گھروں کو گرم رکھنے اور روشنی کیلئے "دی لی” جلایا کرتے تھے، دیلی چیڑھ کے درخت کی لکڑی کے درمیانی سرخ حصے سے بنتی ہے۔یہ حصہ چیڑھ کے روغن سے بھرپور اور دیر تک جلنے والا ہوتا ہے۔۔دیلی جلانے سے سیاہ رنگ کا ایسا دھواں نکلتا پے جس سے آنکھوں کا کاجل بنتا ہے۔
ہماری ترقی ہوئی تو ہمارے گھر دئیے سے آشنا ہوئے ۔مٹی اور تانبے کے بنے دیئے میں سرسوں کا تیل ڈال کر اس میں سوتر یا موٹا دھاگہ ڈال دیا جاتا تھا ۔یہ سوتر تیل چوس کر ساری رات سرخ لو کی شکل میں جلتا رہتا تھا۔کچے مکانوں کے کیواڑوں سے آنے والی سرد ہوائیں اس لو کو مجسم رقص رکھتی تھیں۔۔یہ دیا ہمارے پہاڑ کی ترقی کی ایک نئی شکل تھا۔۔
وقت بدلا حاکم بدلے۔۔۔۔۔انگریزوں کا دور شروع ہوا۔۔ پہلی جنگ عظیم ہوئی پھر دوسری جنگ عظیم ہوئی۔۔ہمارے پہاڑ سے جنگ لڑنے کیلئے جانے والے ہمارے جوان (فوجی) انگریزوں کے ساتھ ایشیائے کوچک، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور مشرق بعید کے محاذوں پر گئے ۔۔۔ کچھ وہاں کام آئے جو باقی رہے وہ واپسی پر پہاڑوں میں طرح طرح کی سوغاتیں لائے۔۔
وہ فوجی اپنے ساتھ کراکری (چینی کے برتن)، چائے حقہ اور چابی سے چلنے والے "کتا باجا” His Master s voice کے علاوہ روشنی بکھیرنے والا ایک نئی قسم کا جرمن ساختہ چراغ بھی لائے جسے ہم لالٹین یا بتی کہا کرتے تھے۔
بتی بہت عرصے تک ہماری تہذیب کا حصہ رہی۔کہیں جانا ہو تو بتی جلا کر ساتھ لے چلو۔گھر میں اندھیرہ ہے تو بتی جلا لو۔۔۔بتی کے ساتھ ہم ایک اور نئی چیز سے بھی واقف ہوئے۔۔وہ تھا مٹی کا تیل یعنی کیروسین آئیل۔یوں ہم دیلی اور دئیے کے دور سے لالٹین کے نیم تاریک دور میں داخل ہوگئے
1952کے بعد ہمیں نیم تاریک دور سے نیم روشن دور میں داخلہ ملا
یہ پیٹرو میکس، گیس یا بڑے بت کا دور تھا جسے کئی علاقوں میں گیس کا ہنڈولہ بھی کہا جاتا تھا۔
روشنی کا یہ ماخذ صرف خاص تقریبات کے استعمال کے لئیے گھروں میں رکھا جاتا تھا۔یہ شادی غمی کی تقریبات کا لازمی جزو تھا۔اس زمانے میں عرب ممالک ابھی امیر نہیں ہوئے تھے۔اس لئیے ہمارے وہ لوگ جو یورپ یا مشرق بعید جاتے تھے وہ واپسی پر جرمنی کا بنا ہوا پیٹرومیکس لیمپ ضرور لاتے تھے۔۔یہ امیرانہ روشنی سمجھی جاتی تھی جس میں تیل کا خرچ زیادہ ہوتا تھا۔
لیمپ میں لگا سوتی دھاگے کا مینٹل جب روشن ہوتا تھا تو تقریبا 20 واٹ کے دودھیا بلب کے برابر روشنی خارج ہوتی تھی جو اس زمانے میں بہت زیادہ روشنی سمجھی جاتی تھی۔
لیمپ میں دستی پمپ کے ذریعے ہوا بھری جاتی تھی ۔ہوا کی طاقت سے مٹی کا تیل پھوار بن کر مینٹل تک پہنچتا تھا اور مینٹل روشن رہتا تھا۔
جب تک گیس جلتا رہتا تھا تب تک ایک خوش کن سرسرائٹ کی آواز پوری محفل پر چھائی رہتی تھی۔لیمپ ہوا ختم ہونے پر یا تیل ختم ہونے پر بجھ جاتا تھا۔شادی کی تقریبات میں لیمپ کا تیل اور ہوا برابر رکھنے کے لئیے باقاعدہ ایک دو ذمہ دار شخص موجود ہوتے تھے جو اس کام کو فخریہ انداز میں پورا کرتے تھے۔شادیوں میں کئی پیٹرومیکس جلا کر رکھے جاتے تھے۔۔
ہمارے بچپن میں ہمارے چچا کی شادی کی تقریب تھی۔کھانا کھلانے کا انتظام پڑوس والے گھر میں رکھا گیا تھا۔سادہ دور تھا۔ہمارے چچا کے گھر اور پڑوس کے گھر کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا جہاں اندھیرا تھا۔
اس زمانے میں گاؤں میں بجلی تو تھی مگر لمبی تاروں اور عارضی بلبوں کا رواج نہیں تھا۔شادی والے گھر لائیٹنگ کا بھی کوئی تصور نہ تھا.میری اور میرے ایک کزن کی ڈیوٹی یہ لگی کہ شادی کے گھر سے کھانے والے کے گھر درمیان دو گیس اٹھا کر کھڑے رہنا ہے تاکہ لوگ آرام سے اندھیرے سے گزر کر کھانا کھاسکیں۔۔
ہم دونوں تین گھنٹے تک مسلسل کھڑے ریے۔۔وقفے وقفے سے لیمپوں میں تیل اور ہوا بھرنے والے صاحب شٹل فلائیٹ کی طرح آتے اور لیمپ کی ری فیولنگ کرکے چلے جاتے????
ہمارے وقتوں کی باتیں اب قصے کہانیاں لگتی ہیں جبکہ پیٹرومیکس اب انٹیک شاپ پر ملتا ہے۔۔۔
6 جون 2024