top header add
kohsar adart

گُلال رنگ جیسا بھارو مل امرانی

تحریر : محمد خان داؤد

گُلال رنگ جیسا بھارو مل امرانی

محمد خان داؤد

اس نے صحرائے تھر میں کردار ایسے سمیٹے ہیں جیسے بعد از بارش معصوم بچے اپنے کاندھوں میں کپڑے کا تھیلا ڈالے وہ گلابی بِیل بوٹیاں سمیٹنے آتے ہیں جو بارشوں کے بعد سفید ریت پر گلابی جوبن میں جھلملا رہی ہوتی ہیں۔ اس نے بھی اپنے کاندھے میں کپڑے کا تھیلا ڈالا اور صحرائے تھر میں نکل کھڑا ہوا۔  اگر تھر میں بارش ہو جائے تو کسی چونرے کے آس پاس ہی گلابی بیل بوٹیاں چمکتی رہتی ہیں۔ شاید ان کے لیے دور نہیں جانا پڑتا۔  اگر کوئی دور بھی چلا جائے تو شاید چونرے سے کچھ قدم آگےتک،  کیوں کہ وہ دعا جیسی بوٹیاں سب کو دعا دینے آتی ہیں۔  وہ بِل بوٹیاں معصوم ہاتھوں سے لے کر ان ہاتھوں میں بھی آتی ہیں جو صحرا میں دیوں کی مانند جل رہی ہوتی ہیں، جن کے محبوب خوبصورت محبت بہت پیچھے چھوڑ کر راتیں کروٹیں بدلتے گزار دیتے ہیں اور یہ یہاں دیوں کے ہمراہ خود بھی جل رہی ہوتی ہیں۔  اگر ان کے بس میں ہو تو روٹی نہ بھی ہو تو بس محبت کو کافی سمجھتے ہوئے اپنے محبوب کو کبھی در بدر نہ کریں۔  محبت جیسے عظیم جذبے کا روٹی کے ہاتھوں روز قتل ہوتا ہے یعنی روز محبت مقتل پہنچتی ہے اور روٹی کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے!
پر اس نے صحرا کے کردار بھی اپنے تھیلے میں ایسے ہی سمیٹے ہیں۔ اسے بارشوں کا انتظار نہیں رہتا۔ بس اس کے من پر محبت کی بارش برستی رہتی ہے اور من اس سے جل تھل ہو جاتا ہے۔  دل میں یار سجن کی یادوں کی ہوائیں چلتی ہیں اور یہ چل پڑتا ہے۔  وہ محبت اسے اپنے چونرے کے باہر بھی ملی ہے۔  پر اس نے اس محبت سے ملنے کو اتنے سفر بھی کیے ہیں جیسے سفر محبت میں جوگی کرتے ہیں۔  محبت کے جوگیوں کے پیر لاہوت کے پہاڑوں پر نقش ہیں اور اس کے پیر صحرائے تھر پر۔صحرا کی ہوائیں اس کے پیروں کے نقش مٹانے نہیں دیتیں۔  کیوں کہ ریت محبت کی امین ہے۔  اگر ریت پر نقش پا مٹ جاتے تو ہم فقیر جہان کھوسو سے بھی نہیں مل پا تے۔  وہ فقیر بھی اسی ریت پر چلے تھے۔ ریت اپنے سے محبت کرنے والوں کے نقش پا محفوظ کر لیتی ہے اور اس نے تھر کے وہ کردار محفوظ کیے ہیں جنھیں شاید باقی ماندہ سندھ نہیں جانتا۔ وہ سارے کردار جو مہان بھی تھے اور عظیم بھی ہیں۔ ان کے سر کارونجھر سے بھی اونچے ہیں۔  کارونجھر ان کے ناموں سے جھک جاتا ہے اور کارونجھر کی کور پر بہت سے مور ان عظیم ناموں کی محبت میں رقص کرتے ہیں اور کارونجھر موروں کے رقص سے مزید گلابی ہو جاتا ہے۔  ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کارونجھر ہر روز ڈائینا مائیٹ کا درد سہہ رہا ہے۔  ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے، پر موروں کی موجودگی میں کارونجھر اس درد کو سہہ جاتا ہے اور مور ہیں جو کارونجھر کی چوٹیوں پر چڑھ کر اسے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی جوگی ہے جو اس صحرائے تھر میں بہت کچھ سمیٹ رہا ہے۔ کردار بھی اور تمہارے ٹوٹے ٹکڑے بھی۔۔۔

محبت سفر کراتی ہے۔  جوگی بناتی ہے۔  لاہوت کے پہاڑوں میں لامکاں کر دیتی ہے۔ درد دیتی ہے۔ دل گداز کرتی ہے۔ پیر درد، دھول اور چھالوں سے بھر جا تے ہیں۔  اس نے بھی سفر کیے ہیں۔ وہ بھی جوگی بنا ہے۔ وہ لاہوت کے پہاڑوں میں جاکر لامکاں تک تو نہیں پہنچا، پر اس کے پیروں میں درد ہے۔ اس کے پیر دھول آلود ہیں۔ وہ لاہوت کے پہاڑوں تک اس لیے نہیں پہنچا کہ اس کا پاندھ کارونجھر سے اڑ گیا۔ یہ کارونجھر کی کور چھوڑ کر اس سے دور گیا ہی نہیں۔  یہ کارونجھر کے ساتھ رویا۔ کارونجھر اس کے آنسو پونچھتا ہے اور یہ کارونجھر کے!

بادلوں نے، چاند نے اور موروں نے وہ منظر دیکھا جب کارونجھر نے اسے اپنی باہوں میں لیا، کارونجھر اس سے بغل گیر ہوا۔ اس نے کارونجھر کی گلابی مٹی کا تلک لگایا اور کارونجھر نے اس کے گال چومے!

جب سے وہ اپنی گودڑی میں تھر کے ان کرداروں کو جمع کر رہا ہے جو محبت کے امین ہیں اور عشق کی بِل بوٹیوں جیسے ہیں۔ بھارومل تھر کا خاموش سپاہی ہے۔جو بہت کچھ جانتا ہے اور کچھ بھی نہیں جانتا۔  وہ تھر کی علمی، عملی اور سماجی تاریخ کو ایسے ہی سمیٹ رہا ہے جیسے بعد از بارش معصوم بچے گلابی بِل بوٹیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں چھو چھو کر اپنے ہاتھوں کو گُلال رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔

اس نے بھی اپنی گودڑی میں ایسے ہی کر دار جمع کیے ہیں اور انہیں چھو چھو کر اپنے ہاتھوں کو گُلال کر دیتا ہے۔  ایسا نہیں ہے کہ اس گودڑی میں بس بِل بوٹیوں جیسے گلابی کردار ہی شامل ہیں پر اس تھیلے میں وہ کردار بھی شامل ہے جو ہو بہو بارش جیسا ہے۔  جو دن رات اس تگ و دو میں ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح کسی غریب، کمی، کمہار ہاری کے لیے خون کا بندو بست ہو جائے، جو زندگی سے دور اور موت کے قریب ہو گیا ہے۔اس لیے جب ہم اس بھارومل کی گودڑی کو دیکھتے ہیں تو وہ گیلی گیلی بھی ہو تی ہے۔ بھارومل کی گودڑی میں بس بارشیں نہیں، بادل بھی ہیں۔  چاند بھی ہے۔ سُکھ بھی ہیں۔ دُکھ بھی ہیں۔  تھر کا صحرا بھی ہے۔ ریت بھی ہے۔ علم بھی ہے۔ لاعلمی بھی ہے۔ درد بھی ہیں۔مسکراہٹ بھی ہے۔  چنگ کی پُرسوز آواز بھی ہے۔  الاپ بھی ہیں۔  وعدے بھی ہیں۔ سیاہ راتوں میں عشق کی باتیں بھی ہیں۔۔اور ان پیروں کی آہٹ بھی ہے جو ایک تھری ماں اپنے بیمار بچے کو رات کے آخری پہر میں مٹھی بس اس لیے لے جاتی ہے کہ شاید اسے کوئی سُن لے اور وہ مٹھی سے نا اُمید نہ لوٹے!!!!

اوراس گودڑی میں وہ چھوٹی چھوٹی قبریں بھی ہیں جو بس تھر کے صحرا پر نہیں، سندھ پر بھی بار ہیں۔
وہ قبریں صحرا میں اس لیے وجود میں آگئی ہیں کہ حکمرانوں نے بس تھری بچوں کی دوائیوں کے پیسے نہیں کھائے، دودھ کے پیسے نہیں کھائے،  سانپ کے زہر کا اثر دور کرنے والی دوائی کے پیسے بھی کھا گئے ہیں جس سے معصوم تھری بچے بہت جلد قبروں میں ڈھل جا تے ہیں۔

بھارومل اس گودڑی میں کوئی ایسا نسخہ بھی رکھو جب تھری مائیں اپنے معصوم بچوں کو وداع آخری کہیں اور چونرے میں اکیلی اور تنہا ہو جائیں تو چاند ان کا درد نہ بڑھائے۔۔۔۔  وہ نسخہ سکون بخش اور درد کُش ہو!

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More