top header add
kohsar adart

لنگر کسی پل

تحریر : حبیب عزیز

لنگر کسی پل

لنگر کسی کو اکثر لوگ کنجر کسی کہتے ہیں۔ کچھ حضرات قلندر کسی بھی کہتے ہیں۔ لیکن کسی قسم کی دل آزاری سے بچنے کے لیے ہم اسے "لنگر کسی” کہیں گے۔

لفظ "کسی” ہماری ماں بولی پہاڑی زبان میں برساتی ندی یا نالے کو کہتے ہیں۔ "کنجر کسی” نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قدیم وقتوں میں اوپر کے گھنے جنگل میں مافوق الفطرت مخلوق کے رونے اور شور شرابے کی وجہ سے اس جگہ کو کنجر کسی کہا جاتا تھا۔

غالبا 1860 کی دھائی کے انگرہزی راج دور میں راولپنڈی سے مری اور مری سے کشمیر سری نگر تک ایک بہترین سڑک کا سروے ہوا، جو بقول ایک انجنئیر دنیا کی بہترین پہاڑی سڑک تھی۔ جھیکاگلی کے مقام سے یہ سڑک لوئر ٹوپہ ، سہر بگلہ، علیوٹ ٫ پھگواڑی ، لوئر اوسیاہ، لوئر دیول، باسیاں اور ملاچھ سے ہوتی ہوئی کوہالہ کے مقام پر کشمیر میں داخل ہوتی ہے۔

جھیکا گلی سے جو سڑک کشمیری بازار، روات، اوسیاہ، دیول، بیروٹ اور باسیاں تک جاتی ہے اور جس کا نام خاقان عباسی روڈ ہے، انگریز کے زمانے میں اس روڈ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس لیے پورے اس بیلٹ کی نقل و حمل لوئر روڈ یعنی "کوہالہ برائڈل روڈ” کے ذریعے ہوتی تھی۔
انگریز کی بنائی ہوئی لوئر روڈ آج تک قائم ودائم ہے اور سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ ملکی دفاعی ضروریات میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔  آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کا پنڈی اسلام اباد سے اسی روڈ کے ذریعے رابطہ ہے۔  موجودہ ترقیاتی ادوار سے پہلے یہی واحد روڈ تھی جس کے ذریعے پاکستان کا کشمیر سے مین زمینی رابطہ تھا۔

اسی سڑک پر پھگواڑی بازار سے تقریبا دو کلومیٹر آگے انجینئرنگ کا شہکار ” لنگر کسی پل " آج تک بہترین حالت میں موجود ہے۔ لنگر کسی ایک بہت بڑا برساتی نالہ ہے، جو بارشوں کے موسم میں مکمل جوبن پر ہوتا ہے۔ ویسے بھی اس نالے میں تقریبا پورا سال پانی موجود رہتا ہے۔

اسی لنگر کسی کے اوپر غالبا 1860 اور 1870 کے درمیان انسانی ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھروں کو استعمال میں لا کر ایک پل بنایا گیا۔ اس دور میں کنکریٹ اور دیگر جدید تعمیراتی مشینیں نہ ہونے کے باوجود محرابی ( آرچ) انداز میں اس طرح پتھر جوڑے گئے کہ آج تک ایک پتھر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔صدیوں سے انسانی نقل و حمل کے ذرائع کے کام آنے والا یہ پل آج بھی ایک قوم کی اپنے کام سے لگن اور ایمانداری کی ایک روشن مثال ہے۔  انسانی ہاتھوں کے تراشے ہوئے نفیس پتھر لال رنگ کی مٹی کے آمیزے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں۔  پل کے دونوں ستون بھی پتھروں کے بنے ہوئے ہیں۔ اوپر سڑک کی چوڑائی اس وقت کے لحاظ سے بہترین تھی، جس کے دونوں طرف حفاظتی جنگلا بھی پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ یہ پل جیومیٹری اور ریاضی کے اصولوں کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا تھا، جس میں توازن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اس زمانے میں سواری کے لیے گھوڑے تانگے، یکے اور بیل گاڑیاں مستعمل تھیں، جن کو مقامی زبان میں "کرینچی” کہا جاتا تھا۔  کرنیچی ایک بیل گاڑی ہوتی تھی، ان میں کسی کسی گاڑی میں ترپال کا سائبان ہوتا تھا۔ ایک لالٹین لازمی پیچھے لٹکائی جاتی تھی۔ بیل گاڑی کے بیل منزل بہ منزل تبدیل کیے جاتے تھے۔  رات کے وقت یہ کرینچیاں قافلوں کی شکل میں سفر کرتی تھیں۔ ان کے پہیوں کی آواز دور دور تک سنی جاتی تھی۔  اس طرح پنڈی سے سرینگر تک سفر ہوتا تھا ۔

امراء گھوڑوں کی بھگی پر سفر کرتے۔ بعد میں اس سڑک پر لاریاں اور دوسری گاڑیاں بھی چلنا شروع ہوئیں۔ لاری ایک ٹرک نما بس ہوتی تھی، جس کے پچھلے کیبن میں لمبائی کے رخ مسافروں کے لیے لکڑی کے دو بینچ لگے ہوتے تھے ۔ درمیانی جگہ اور چھت پر تجارتی سامان اور پالتو جانور مثلا بھیڑ بکریاں ہوا کرتی تھیں۔

یہ پل اپنی تعمیراتی خوبصورتی اور مضبوطی کا ایسا شہکار ہے جس کی حفاظت علاقائی اور قومی ورثے کے طور پر کی جانی چاہیے۔  اس جگہ کو تفریحی مقام کے طور پر بھی ترقی دی جاسکتی ہے۔ ہماری جوان نسل کو ضرور اس جگہ کا وزٹ کرنا چاہئیے۔ آس پاس گھنا اور ہرا بھرا جنگل ہے۔  خاموشی اور سکوت کا ماحول ہے۔اس مقام سے آبادی کافی دور ہے ۔  پاس ہی مشہور و معروف جنگل ہوٹل ہے۔

یہ مقام کبھی اوپری علاقے مثلا اوسیاہ، دیول، روات والوں کا مرکزی سٹاپ ہوا کرتا تھا کیونکہ اوپر کی طرف کوئی سڑک موجود نہیں تھی۔ یہاں سے لوگ پیدل میلوں چل کر گھروں تک جاتے تھے۔ سامان اور دیگر اشیائے ضروریہ لے جانے والے مزدور یہاں دستیاب ہوتے تھے۔ ان مزدوروں میں دو بھائی بہت مشہور تھے۔

اوپر کی طرف جانے والا قدیم راستہ آج بھی موجود ہے، جو گھنے جنگل اور دو بارانی ندیوں کے ساتھ ساتھ اوپر جاتا ہے۔  پرانے وقتوں میں اکیلے سفر کرنے والے بزرگوں کے ساتھ رات کے وقت اس جنگل میں بہت سارے پراسرار اور محیر العقول واقعات پیش آئے۔  خود میں نے بچپن میں ایسے بہت سے واقعات سنے تھے، جن کے مطابق سڑک سے اوپر گھنے جنگل میں ندی کے پاس چھلاوہ، پچھل پیری اور بلاؤں کا بسیرا ہوا کرتا تھا۔ میں نے بچپن میں اپنے گاؤں میں بسنے والے ایک مرحوم بزرگ کے ساتھ پیش آیا ایسا ہی واقعہ سنا تھا، جو انگریز دور میں فوج میں نوکری کرتے تھے اور انہوں نے رات کو تنہا اس جنگل کا سفر کیا تھا۔

لنگر کسی پل کی چوڑائی اپنے وقت کے لحاظ سے بہترین تھی مگر ٹریفک میں زیادتی کی وجہ سے یہ چوڑائی کم محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اس لیے چند سال پیشتر قدیم پل کے ساتھ ایک نئے پل یا ایکسٹینشن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ خلاف روایت پرانا پل گرایا نہیں گیا۔

نئے پل سے ٹریفک کی روانی تو بہتر ہوگئی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر نیا پل پرانے پل سے تھوڑا سا ہٹ کر بنایا جاتا۔  اس سے قدیم پل کا تعمیراتی حسن متاثر نہ ہوتا۔  بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ قدیم پل بچ گیا۔

ان دونوں پلوں کی پچھلی طرف کھدائی کی مٹی پڑی ہوئی ہے، جس سے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ نتیجتا پل کے ڈھانچے کو شدید برسات میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ لہذا وہ مٹی ہٹانے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز اس جگہ کی صفائی ستھرائی کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔  یہاں پر ایک صاحب گاڑیاں دھونے کا کام کرتے ہیں اور گاڑی دھونے میں جو واشنگ پاوڈر استعمال کرتے ہیں اس کے ریپرز بلا تکلف وہاں ہر ہی پھینک دیتے ہیں۔  اس طرح وہاں سینکڑوں ریپرز کا ڈھیر لگ گیا ہے۔  بندہ خدا کو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی کہ ان ریپرز کو جمع کرکے جلا دیں۔

یہ جگہ ایک بہترین تاریخی اور تفریحی مقام بن سکتی ہے۔ بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔

اوسیاہ مری
1 مئی 2024

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More