ہمارے چچا جان ….. محمد نعیم خان
یوم مئی پر ایک سعادت مند بیٹے کا اپنے والد کو خراج عقیدت
محمد نعیم کا تعلق گلیات سے ہے۔۔وہ روزگار کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں۔۔ان کے والد نے خاندان کی پرورش کس طرح سے کی۔۔ان کی ضرورتوں کا خیال کیسے رکھا؟ خود محنت مزدوری کر کے اور کندھوں پر بوجھ اٹھا کر اپنے بچوں کو کس طرح پالا اور انہیں تعلیم دلائی۔۔محنت کش والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے محمد نعیم کی یہ خوبصورت تحریر کوہسار نیوز کے قارئین کے لیے بطور خاص پیش کی جا رہی ہے۔۔
میرے والد صاحب مزدور تھے۔ گاؤں میں اکثر لوگ انھیں بالا چاچا کہ کر پکارتے۔ وہ صبح صبح ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل مسافت پر موجود پہاڑی گاؤں کے چھوٹے سے بازار "کالا باغ” چلے جاتے اور دوپہر تک وہاں بڑے شہروں سے آنے والے مختلف دکانوں کے سامان کی لوڈنگ ان لوڈنگ کرتے۔ اس دور میں عموماً آٹا بھورے رنگ کی جیوٹ سے بنی بوریوں میں آتا تھا اور شاید اس وقت ایک بوری میں ڈھائی من آٹا آتا تھا۔ جبکہ چاولوں کی بوری پچاس کلو کی ہوتی تھی۔ تایا کے بیٹوں کے منہ سے سن سن کر ہم بھی اپنے والد صاحب کو چچا جان کہتے تھے اور جب تک وہ حیات رہے ہم انھیں چچا جان کہ کر ہی پکارتے رہے۔
چچاجان کبھی کبھی مجھے بھی اپنے ساتھ کالا باغ بازار لے جاتے۔ اپنے پڑوسی حاجی میر حسن صاحب کی دکان پر مجھے بیٹھا دیتے اور خود کام پر لگ جاتے۔ مجھے حاجی صاحب اور ان کے بیٹے یوسف بھائی مرحوم کا مسکراتا چہرہ اب بھی یاد ہے۔ میں اکثر انھیں مشقت کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ خود صبح کا ناشتہ گھر سے کر کے جاتے اور دوپہر کا کھانا گھر آکر کھاتے ۔ مگر جب بھی مجھے ساتھ لے کر جاتے بازار کے ہوٹل سے ہی کھانا کھلا کر لاتے۔ وہاں ایک چھوٹا سا چپلی کباب کا ہوٹل تھا۔ عموماً مجھے وہ چپلی کباب ہی کھلاتے کیوں کہ پتلی کاغذی چپاتی کے ساتھ مجھے وہ پسند تھے۔ اور کبھی پائے کے شوربے میں روٹی ڈبو کر کھلاتے، اس دور میں پائے ہوں یا چپلی کباب سب کا ذائقہ بڑا عمدہ لگتا تھا۔ کانچ کی بوتل میں ملنے والی ریگولر کولڈرنک بھی اتنی تیز ہوتی تھی کہ آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ پھر کھانا کھلانے کے بعد وہ مجھے واپس لے کر گھر آ جاتے۔ کبھی ان کے پاس گھر کا سودا سلف ہوتا تھا ، کبھی محلے سے اگر انھیں کسی نے کچھ سامان لانے کا کہا ہوتا تو وہ لے کر آتے۔
محلے والوں میں سے انھیں کوئی چیز لانے کا کوئی کہے اور وہ انکار کر دیں ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حالانکہ وہ محلے داری کا یہ کام بغیر کسی اجرت کے کرتے۔ راستے میں چلتے ہوئے اس بھاری بھرکم سامان کی موجودگی کے باوجود جب دیکھتے کہ میں تھک گیا ہوں تو کسی جگہ بیٹھ کر مجھے اپنے کندھوں پر سوار کر لیتے ، ایسے بیٹھا لیتے کہ میں ان کا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا اور وہ دونوں ہاتھوں میں سامان اٹھائے چلتے رہتے۔ کالا باغ سے ہمارے گھر کی طرف آتے ہوئے رستے میں باغ نکر سے پہلے گھنا جنگل بھی ہے۔ مجھے اس جنگل سے گزرنے میں ہمیشہ ایک خوشی اور سکون ملا ہے۔ چاہے وہ بہار میں پرندوں کی خوبصورت بولیاں ہوں یا سردیوں میں جمی برف، میں اس رستے پر کھیلتے ہوئے کبھی کوئی پھول توڑتا اور کبھی برف پر گری کسی کون کو پوری طاقت سے نیچے اچھالتا کہ دیکھوں کتنی دور جا گری ہے۔ کسی موڑ پر میں کھیلتے کھیلتے پیچھے رہ جاؤں تو ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں تو مجھے جلدی آنے کی آواز دے دیتے ۔
تھوڑا بڑا ہونے پر مجھے ان کا یوں کام کرنا معیوب لگتا تھا ۔ لوگوں کو اپنے والد کا پیشہ بتاتے ہوئے عار محسوس کرتا تھا کہ میرے والد صاحب بازار میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے ہیں ۔ اسکول سے واپس آتے ہوئے کبھی وہ بھاری بھرکم سامان اٹھائے ہوئے آ رہے ہوتے تو ایک خفت سی محسوس ہوتی ۔ جب شعور میں تھوڑی پختگی آئی، زمانے کے سرد گرم سے آنکھیں کھلیں تو پتہ چلا چچا جان کتنے عظیم تھے۔ کتنی مشقت اٹھا کر اس غربت میں بھی انھوں نے ہمارے لیے گھر بنائے، ہمیں بہترین کھلایا پلایا، سب سے بڑھ کر ہمیں پڑھایا۔ ہمیں حلال کا لقمہ کھلانے کے لیے انھوں نے نجانے کتنے بوجھ اٹھائے ہوں گے۔ کتنے لوگوں کی باتیں سنیں ہوں گی۔ مزدوری طے کرنے پر نجانے کتنے لوگوں سے لڑائی جھگڑا کیا ہو گا۔ وہ چاہتے تو ہمیں بھی چھوٹی عمر میں ہی کسی ہوٹل یا دکان پر کام کرنے لگوا دیتے کہ خود کام کرو اور اپنا کماؤ، لیکن انھوں نے تمام بھائیوں کے جوان ہونے تک انھیں تعلیم دلوائی ۔
یہی وجہ ہے کہ بڑے دو بھائی جو اس وقت میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی آ گئے تھے اور اپنا کام کرنے لگے۔ جبکہ ہم چھوٹے تین بھائیوں نے اپنی سولہویں تک اپنی پڑھائی مکمل کی اور اب الحمدللہ تینوں اچھی اور باعزت سرکاری ملازمت کر رہے ہیں ۔ یہ ہمارے والدین کی غربت کے باوجود ہمارے لیے محنت اور دعاؤں کے سبب ہی ممکن ہوا۔ چچا جان نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا، مگر جب ہم تھوڑے بڑے اور سمجھدار ہوئے،2004 میں چچا جان اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اور ہم چند ٹوٹی پھوٹی دعاؤں کے علاوہ ان کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ آج میں یہ برملا کہتا ہوں کہ میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں۔ مجھے اپنے مزدور باپ پر فخر ہے۔ اور اللہ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں کہ جتنی دنیا میں انھوں نے ہمارے لیے مشقت اٹھائی اخروی زندگی میں انھیں اتنی ہی راحتیں نصیب فرمائیں اور جتنے دنیا میں انھوں نے ہمیں پھل اور میوے کھلائے جنت کے باغات سے انھیں اسی طرح پھل اور میوے کھلائے۔ اللھم آمین
یکم مئی 2024
ایک مزدور کے بیٹے کے اپنے والد صاحب کے لیے خیالات و جذبات