ماؤ نی بولی بولناں یاں

تحریر : راشد عباسی

ماؤ نی بولی بولناں یاں

1669864386597

اسی (80) کی دہائی میں کوہسار سے شہروں کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا۔  یہ وہی زمانہ ہے جب مادری زبانوں اور مقامی ثقافتوں کے حوالے سے "احساس کمتری” پیدا کرنے کی شعوری کامیاب کوششیں کی گئیں۔ کوہسار میں ماؤں کو باور کروایا گیا کہ مادری زبانیں بولنے والے گنوار اور پینڈو ہوتے ہیں۔  اس لیے مادری زبانیں بولنے والے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

 

ماؤُ نی بولی بولناں یاں
کِسرے پِچھّیں رہی گیساں
(تیمور ذوالفقار، پھگواڑی، مری)

سکولوں اور گھروں میں سختی سے پہاڑی زبان بولنے پر پابندی عاید کی گئی، خصوصا اوسیاہ اور دیول میں اسے مذہبی ذمہ داری کی طرح نبھایا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ اوسیاہ، دیول جیسے علاقے جہاں کے زرخیز اذہان کی فراوانی سے کسی کو انکار نہیں اور اردو، انگریزی میں لکھنے والے کئی قلم کار موجود ہیں لیکن پہاڑی زبان میں لکھنے والے کسی تخلیق کار سے کم سے کم میں واقف نہیں ہوں۔ اردو میں برادرم قیصر مسعود (استاد محترم مسعود ملک صاحب کے صاحب زادے) کیا ہی اچھی شاعری کر رہے ہیں۔ ان کے کئی شعری مجموعے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔

برائے نام سہی، پر ذرا میسر ہو
عجیب حبس کے دن ہیں، ہوا میسر ہو۔  (قیصر مسعود)

انگریز کی ظالمانہ تقسیم دیکھیں کہ دیول کی حد پار کریں تو ہزارہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں احساس کمتری کی وہ شدت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کئی احباب اخباروں میں پہاڑی زبان میں کالم لکھتے رہے اور شاعری بھی کرتے رہے۔ ان میں عبید اللہ علوی مرحوم اور سجاد عباسی (گروپ ایڈیٹر، روزنامہ امت) شامل ہیں۔ بیروٹ سے محترم محبت حسین اعوان نے پہاڑی سیرت النبی جیسے مشکل کام کی طرف توجہ دی اور پہاڑی میں "اساں نے نبی پاک اؤر” جیسی تاریخی کتاب لکھی۔ اس کے بعد انھوں نے "پہاڑی آخان” بھی کتابی صورت میں شائع کر دیے۔ چند برس پہلے ان کے پہاڑی افسانوں کی کتاب "پھلاں پہری چنگیر” منظر عام پر آئی۔

1669864388859

مری سے پہاڑی زبان کا پہلا شعری مجموعہ "دیوان آکاش” بیس بائیس سال پیشتر منظر عام پر آیا۔ محترم مسعود آکاش اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے ورنہ پہاڑی زبان کے فروغ میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔

طُور نی اَگ نانہہ لَوڑ
اپنے سیکے تَپ
(مسعود آکاش)

لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مری میں پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے ان احباب کی کاوشیں لائق صد تحسین ہیں، جن کی مادری زبان پہاڑی نہیں تھی۔ ان میں سلیم شوالوی، محمد آصف مرزا، امجد بٹ اور ان کے کئی دیگر رفقاء شامل ہیں۔  ان کی کاوشوں سے گزشتہ بیس برس سے ادبی رسالہ "دستک” تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور اردو کے ساتھ ساتھ پہاڑی زبان کی بقا اور فروغ کے لیے بھی تاریخی اہمیت کی خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ 

IMG 20240426 101535 887

مقبوضہ کشمیر میں پہاڑی زبان کی سرکاری اکیڈمی موجود ہے۔ وہاں سے ادبی رسالہ "شیرازہ پہاڑی” اسی کی دہائی سے تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ سینکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔ قرآن مجید کا پہاڑی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔

images 33 1

آزاد کشمیر سے برادر عزیز ڈاکٹر محمد صغیر نے ایک اکیڈمی جتنا کام اکیلے کر دیا ہے۔ پہاڑی زبان میں ان کی ایک درجن کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں شاعری، افسانے، ناول، سفر نامہ، آخان، لوک گیت اور خاکے سب کچھ شامل ہے۔  ان کے قافلے میں اب ممتاز غزنی، حمید کامران، علی احمد کیانی، قمر رحیم، پروفیسر سعادت اکبر اور دیگر کئی قلم کار شامل ہو گئے ہیں۔

IMG 20230827 095430 402

برطانیہ سے علی عدالت پہاڑی زبان کا ایک جینیئس لکھاری ہے۔ انھوں نے یوں تو کئی کتابیں لکھیں اور پہاڑی میں فلمیں، ڈرامے بنائے لیکن حال میں شائع ہونے والا ان کا ناول "جاسوس” پہاڑی کا کلاسیکی ناول ہے۔ اگر اسے اردو ، انگریزی میں ترجمہ کیا جائے اور اس پر فلمیں، ڈرامے بنائے جائیں تو اسے درجنوں ایوارڈ مل سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے برادرم ذوالفقار حسین کی کاوشیں بھی لائق صد تحسین ہیں۔  ان کا تعلق میرپور سے ہے اور جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں پہاڑی کے قلم کاروں سے مل بیٹھ کر ماں بولی کے فروغ کے امکانات پر ضرور مکالمہ کرتے ہیں اور پھر انہی خطوط پر عملی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جرمنی سے کومل راجہ بھی پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے وقیع کام کر رہی ہیں۔

IMG 20240426 122749 344

پروفیسر اشفاق کلیم عباسی کا تعلق سنبل بیاء مری سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پہاڑی میں بھی شاعری و نثر لکھتے ہیں۔ ان کا پہاڑی شعری مجموعہ”نویں سویل” زیور طبع سے آراستہ ہو کر پذیرائی اور داد حاصل کر چکا ہے۔

IMG 20220207 WA0172 4

شکیل اعوان کا تعلق نگری سے ہے۔ گلوکاری کے ذریعے بھی پہاڑی زبان کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں اور اردو، پہاڑی، ہندکو اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ پہاڑی زبان میں ان کا شعری مجموعہ "ٹہآکیاں نے پھل” بہت مقبول ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ زیر طبع ہے۔

1669864352225

راقم الحروف کی پہاڑی غزلوں کا مجموعہ "سولی ٹنگی لوء” اور نظموں کا مجموعہ "عشق اڈاری” شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی رونمائی مادری زبانوں کے قومی ادبی میلے میں ہوئی۔  پہاڑی میں ادب اطفال کی کمی پوری کرنے کے لیے "اقبال نیں شاہین” راقم کی ایک اور کاوش ہے جو ان شاءاللہ دو ہفتے میں کتابوں کی دکانوں پر دستیاب ہو گی۔ اس کے علاوہ پہاڑی زبان کا پہلا کتابی سلسلہ "رنتن” بھی شائع ہو رہا ہے جس کے اب تک چار شمارے شائع ہو چکے ہیں۔

Screenshot 20220612 220601 4۔ 1669864386685 3

Screenshot 20240105 224431

بد قسمتی سے ماں بولی کے فروغ اور مقامی زبانوں اور ثقافتوں کے حوالے سے "احساس کمتری” ختم کرنے کے لیے ہمارے سیاسی نمائندوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اسی لیے انگریزی زبان اور انگریزی سکولوں کی اجارہ داری کے اس عہد میں مادری زبانوں کو مٹنے کے شدید خطرات لاحق ہیں۔

آئیے ہم سب مل کر مادری زبانوں کی بقا اور فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

IMG 20230727 125829 968 scaled

FB IMG 1613573562118

راشد عباسی

ایک تبصرہ چھوڑ دو