پپو یار تنگ نہ کر
اطہر مسعود وانی
صاحب تحریر
یقینا آپ نے ریس لگاتی دو بسیں دیکھی ہوں گی جن میں سے اگلی بس سپیڈ سے سڑک پہ بھاگ رہی ہوتی ہے اور اس کے پیچھے آنے والی دوسری بس اگلی بس سے آگے نکلنے کے لئے اگلی بس کے بمپر سے بمپر جوڑ کر مسلسل خوفناک آواز کا ہارن بجائے جاتی ہے۔ پچھلی بس کے لئے اگلی بس سے آگے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود پچھلی بس مسلسل ہارن بجاتے ہوئے اس کو راستہ دینے کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔اگلی بس کے ڈرائیور نے بھی تہیہ کیا ہوتا ہے کہ پچھلی بس کو آگے نہیں نکلنے دینا لیکن پچھلی بس کے مسلسل بھیانک آواز کے ہارن سے وہ نہ صرف پریشان ہوتا ہے بلکہ غصے سے بھر بھی جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگلی بس کا ڈرائیور پچھلی بس کے ڈرائیور کی اس کوشش سے اتنا تنگ آتا ہے کہ وہ غصے میں پچھلی بس کے ڈرائیور کی شان میں غیر اخلاقی الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔ پچھلی بس کو اگلی بس سے آگے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا اور پچھلی بس تیز رفتاری سے اگلی بس کے ساتھ لگ کر مسلسل پریشر ہارن بجاتی رہتی ہے۔اسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کے طور پر اکثر بسوں کے پیچھے تحریر ایسے جملے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ” پپو یار تنگ نہ کر” ، ” برداشت کر یا کراس کر”۔
کچھ ایسا ہی احوال آج کل آزاد کشمیر میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چودھری انوار الحق تحریک انصاف کے باغی گروپ کی سربراہی کرتے ہوئے ماضی کی حکومتوں میں رہنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تعاون اور اتحاد کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔تاہم وزیر اعظم کی دونوں اتحادی جماعتوں کی طرف سے ان پر تنقید کے ساتھ ساتھ وقتافوقتا حکومت تبدیل کرنے کے بیانات اور کوششیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔اس کے جواب میں وزیر اعظم کا یہی کہنا ہے کہ جب تک انہیں وزیر اعظم بنوانے والوں کا ساتھ حاصل ہے، ان کی حکومت کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے حکومت قائم ہونے سے انہی دونوں سیاسی جماعتوں کی آزاد کشمیر میں قائم شاخوں میں بھی امید جاگی کہ اب آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی باقیات کی حکومت کو تبدیل کر دیا جائے گا۔صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کو انہی کی آشیر باد حاصل ہے جن کی پشت پناہی سے آزاد کشمیر میں چودھری انوار الحق کو وزیر اعظم بنوایا گیا ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ ن وزارت عظمی اور پیپلز پارٹی ملک کی صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد تفویض کی گئی ذمہ داریوں کے اہداف کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اقتصادی بحران، دہشت گردی، ہمسایہ و دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے امور کے علاوہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو کئی دشوار سیاسی مسائل بھی درپیش ہیں۔اس گنجلک صورتحال میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لئے آزاد کشمیر کے سیاسی امور کی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ وہ اس بارے میں ان سے کوئی فرمائشی مطالبہ کر سکیں جن کی انہیں آشیر باد حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں بھی اس وقت تک اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتی جب تک بچہ روتا نہیں ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر میں قائم تنظیموں کی طرف سے ابھی تک اپنے مرکزی قائدین سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے ان کی پریشان کن صورتحال اور آزادکشمیر میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما چاہے دل میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہوں لیکن ساتھ ہی وہ حکومت سے الگ ہو کر حکومت تبدیل کرنے کی تحریک چلانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ان کی یہ سوچ غالب نظر آتی ہے کہ اس وقت جو مل رہا ہے اس سے کیوں محروم رہا جائے۔آزاد کشمیر حکومت میں پیپلز پارٹی کو آزاد کشمیر اسمبلی کی سپیکر شپ ، چند وزارتیں اور مسلم لیگ ن کو سینئر موسٹ وزیر و چند وزرا کا حصہ ملا ہوا ہے۔ان دونوں اتحادی جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومتی اتحادی نہ رہنے کی صورت انہیں انتخابی حلقوں میں فنڈز د، ترقیاتی امور کے حصے سے محروم ہونا پڑے گا، لہذا جب تک مقدر حلقوں کی رائے ازخود تبدیل نہیں ہوتی ، اس وقت تک پرانی تنخواہ کو ہی غنیمت سمجھا جائے۔
آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش اور ہلکی پھلکی کوشش میں دونوں اتحادی جماعتوں میں تھوڑا بہت انتشار بھی جلوہ افروز ہو رہا ہے۔ چودھری انوار حکومت میں شامل دونوں اتحادی جماعتوں کے وزرا وزیر اعظم پر تنقید کا جواب دینے کی سیاسی مجبوری رکھتے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر وغیرہ بننے کے لئے ان کا انتخاب ان کی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا ہے، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں حکومت میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔بہر حال اگلی بس سے آگے نکلنے کے لئے پچھلی بس اگلی بس کے بمپر سے بمپر جوڑ کر مسلسل پریشر ہارن بجاتے ہوئے اگلی بس کے ڈرائیور کی برداشت کو چیلنج کرتی رہے گی۔ اگلی ، پچھلی دونوں بسوں کی سواریاں محو تماشہ ہیں کہ کب تلک اگلی بس آگے رہتی ہے اور کب پچھلی بس کو آگے نکلنے کا راستہ ملتا ہے ، ملتا بھی ہے یا نہیں ملتا۔سواریوں کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ کہیں اگلی بس کا ڈرائیور آپے سے باہر ہوتے ہوئے بس کو کسی حادثے سے ہی دوچار نہ کر دے