
خان صاحب۔۔صدی کے بدقسمت ترین انسان ……………مظفر بخاری
خان صاحب ہمارے عزیز دوستوں میں سے ہیں۔آپ ان کی داستان غم سنیں گے تو کلیجہ منہ کو آئے گا۔
دنیا میں یوں تو بڑے بڑے بدقسمت لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن خان صاحب جیسا بدقسمت انسان آپ کو خوش قسمتی ہی سے ملے گا۔ان کی پہلی اور بنیادی بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس بر صغیر میں پیدا ہو گئے ہیں جہاں جہالت ہے، بھوک ہے، بیماری ہے اور جہاں کے رہنے والے ہر لحاظ سے جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔اور پھر ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں دولت کی ریل پیل تک نہ تھی۔ ان کے والد جنہیں وہ” باپ سالا "کہہ کر یاد کرتے ہیں،معمولی حیثیت کے آدمی تھے جن کی کل کائنات مزنگ روڈ پر دو کوٹھیاں اور چند ایک دکانیں تھیں جن کی دیکھ بھال اور کرایا وصولی میں خان صاحب کو انگنت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول ان کے "باپ سالا میرے لیے پریشانی کا سامان چھوڑ گیا۔”آپ ہی انصاف سے فرمائیے کہ خان صاحب اگر برلا یا ٹاٹا جیسے خاندان میں پیدا ہو جاتے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑتی۔لیکن جب انسان ازلی بد قسمت ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ مقدر اچھے ہوتے تو انڈیا میں کیوں پیدا ہوتے۔ آخر انگلینڈ فرانس امریکہ وغیرہ بھی تو اسی روئے زمین پر واقع ہیں۔بچے وہاں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ کمبخت خوش نصیب ہوتے ہیں ۔خان صاحب کی طرح بدقسمت نہیں۔
خان صاحب بی۔اے کرنے کے بعد سی ایس پی افسر بننا چاہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے مقابلے کا امتحان دیا۔لیکن اس ملک میں بدقسمتی سے ہر کام رشوت سے ہوتا ہے اور یا پھر سفارش سے۔ چنانچہ خان صاحب کو تحریری امتحان میں فیل کر دیا گیا۔خان صاحب نے ہمت نہ ہاری اور اگلے سال پھر امتحان دے ڈالا۔اس بار پرچے اتنے اعلیٰ حل کیے کہ ممتحن انہیں باوجود کوشش کی فیل نہ کر سکے ۔لیکن بدقسمتی نے انٹرویو کے وقت آلیا۔انٹرویو لینے والے ان کی شخصیت اور علم سے متاثر ہونے کے بجائے حسد میں مبتلا ہو گئے اور بر بنائے کینہ و حسد انہیں فیل کر دیا اور ان کے مقابلے میں نالائق لیکن سفارشی امیدواروں کو پاس قرار دے دیا۔
اس کھلی دھاندلی پر خان صاحب اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ معلمی کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔چنانچہ بی۔ایڈ کی ڈگری لے کر ایک ہائی سکول میں ٹیچر لگ گئے۔لیکن بدقسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔تنخواہ کم تھی۔ 40 منٹ کے پانچ پریڈ روزانہ پڑھانا کیا کسی انسان کے بس کی بات ہے۔ دوسرے اساتذہ تو گپیں ہانک کر وقت گزار لیتے تھے۔لیکن خان صاحب بدقسمتی سے اپنا فرض پہچانتے تھے نیز اس اسکول کے لڑکے بقول خان صاحب بہت حرامی تھے۔بالخصوص خان صاحب کی کلاسز میں ہیڈ ماسٹر نے جو ان کے علم و فضل سے جلتا تھا ،چن چن کر شرارتی اور نالائق لڑکے جمع کر دیے تھے۔ تاکہ خان صاحب تنگ آ کر خود ہی اسکول چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
40 میں سے 38 منٹ تو انہیں خاموش کرانے میں لگ جاتے جوں ہی لڑکے خاموش ہوتے پریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی۔ (بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ گھنٹی پہلے بجتی پھر لڑکے خاموش ہوتے واللہ اعلم باالصواب) اسکول کی انتظامیہ سے یہ بھی نہ ہوا کہ انہیں فارغ اوقات میں بیٹھنے کے لیے الگ کمرہ ہی دے دیتی جس میں ایک آدھ قالین اور دو چار صوفے ہوتے۔ آخر ایک روز ہیڈ ماسٹر کی سازش کامیاب ہو گئی اور اس کے اکسانے پر لڑکوں نے خان صاحب کی کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا خان صاحب نے طیش میں آ کر استعفیٰ دے دیا لیکن آتے وقت ہیڈ ماسٹر کو وہ بے نقط سنائیں کہ اس کی طبیعت صاف ہو گئی اب خان صاحب نے ایم اے کی تیاری کر کے امتحان دے ڈالا۔
بدقسمتی سے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن تو حاصل نہ کر سکے۔تاہم پاس ہو گئے اور چند ماہ بعد ایک مقامی کالج میں لیکچرار لگ گئے۔لیکن مقدر کی سیاہی پھر بھی کم نہ ہوئی۔ تنخواہ اگرچہ پہلے سے زیادہ تھی۔اٹھنے بیٹھنے کو الگ کمرہ بھی مل گیا لیکن چپڑاسی ایک بھی نہ ملا۔حکومت سے یہ تک نہ ہوا کہ جی۔ او۔ آر میں کوئی ڈھنگ کی کوٹھی ہی رہائش کے لیے دے دیتی۔ (خان صاحب کی اپنی کوٹھیاں کرائے پر اٹھی ہوئی تھیں جن کے مکین بد قسمتی سے خالی کرنے پر رضامند نہ تھے۔) کالج جانے کا مسئلہ بھی خاصا سنگین تھا۔ کالج کی اپنی کوئی بس نہیں تھی۔ اے۔ جی آفس والے کار خریدنے کے لیے پیشگی رقم نہیں دیتے تھے مجبورا” خان صاحب کو اپنے ذاتی سکوٹر پر کالج آنا پڑتا۔لیکچر شپ میں خرابی یہ تھی کہ اوپر کی آمدنی کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔لے دے کے کبھی کبھار ایف۔بی۔ اے کے پرچے مل جاتے جن کا معاوضہ برائے نام تھا۔چنانچہ خان صاحب پرچوں پر محض سرسری نظر ڈال کر نمبر لگا دیتے جلد ہی خان صاحب اس پیشے سے بھی بد دل ہو گئے۔ بھلا یہ بھی کوئی پیشوں میں پیشہ تھا۔نہ کھوٹی نہ کار۔ نہ چپڑاسی ۔نہ ٹیلی فون۔ نہ رعب، نہ دبدبہ۔۔ حالانکہ مجسٹریٹوں کو یہ سب کچھ میسر تھا۔
تنگ آکر خان صاحب نے پی۔سی۔ ایس کا امتحان دے ڈالا۔ پاس بھی ہو گئے اور مجسٹریٹ بھی لگ گئے۔ لیکن واہ ری بدقسمتی تو نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔آئے دن ٹرانسفر ہو جاتی ایک جگہ جم کر بیٹھ نہ پاتے کہ دوسری جگہ جانے کا حکم مل جاتا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر جواب طلبی کرنے والے، ایک نہیں کئی ایڈیشنل، ڈپٹی کمشنر، ڈپٹی کمشنر سیکرٹری، ہائی کورٹ۔۔ زندگی عذاب بن کر رہ گئی۔
ایک بار ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے سلسلے میں طلب کر لیا۔ہاتھ جوڑ کر معافی ملتی۔سارا دن اوٹ پٹانگ قسم کے مقدمے سننا پڑتے۔وکیلوں کی باتیں اپنی جگہ پریشان کن ہوتیں۔ گھر جا کر ایک سینیئر وکیل سے مقدمات کے فیصلے لکھوانا پڑتے۔وہ وکیل لوگوں سے پیسے لے کر اپنی مرضی کے فیصلے لکھ لیتا اور لاکھوں کماتا لیکن بد دیانت اس حد تک تھا کہ اکثر خان صاحب کے حصے کے پیسے بھی خود ہی ہضم کر لیتا۔ مسائل کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وقتاً فوقتاً شہر میں ہنگامی ڈیوٹی لگ جاتی۔عید کے روز لوگ تو نماز عید پڑھ رہے ہوتے اور خان صاحب مسجد کے باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے۔زندگی ایک مشین بن کر رہ گئی۔خان صاحب لیکچرر شپ کے زمانے کی فراغت یاد کرتے ہے اور آہیں بھرتے۔
رومان اور شادی کے سلسلے میں بھی خان صاحب بدقسمت ثابت ہوئے ایک عرصے تک وہ کسی مناسب محبوبہ کی تلاش میں سرگرداں رہے لیکن جب کسی حسینہ نے خان صاحب سے عشق جتانے کی جرات نہ کی (خان صاحب کا دبدبہ بہت ہے) تو انہوں نے محبوبہ کی تلاش کو بیوی کی تلاش میں بدل لیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ رشتے تو بہت آرہے ہیں لیکن خان صاحب کو فائنل سلیکشن کے لیے چند ماہ درکار ہوتے ہیں۔آخر زندگی بھر کے فیصلے آناً فانا” تو نہیں کیے جا سکتے۔چنانچہ پہلے تو خان صاحب لڑکی کا خاندانی پس منظر جاننے کے لیے جاسوسی کا مشن چند قریبی دوستوں اور بے تکلف طلبہ کے سپرد کرتے ہیں اگر یہ رپورٹ مل جائے کہ لڑکی کا پس منظر اطمینان بخش ہے تو وہ لڑکی کے پیش منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
لڑکی کے نوجوان رشتہ داروں ہمسایوں اور کالج فیلوز کا بغور مشاہدہ اور مطالعہ کرتے ہیں۔اگر پیش منظر اطمینان بخش نکلے تو رشتے کے لیے ہاں کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں ۔لیکن اس سارے عمل میں دقت یہ پیش آتی ہے کہ متعلقہ لڑکی اپنے اطمینان بخش پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ پیا گھر منتقل ہو چکی ہوتی ہے۔چند ایک تو یہ کہہ کر انکار کر چکی ہیں کہ خان صاحب (میرے منہ میں خاک) پاگل اور خبطی ہیں اور وہ خان صاحب سے شادی کر کے اپنی زندگی برباد نہیں کر سکتیں۔
بہرحال رشتوں کی کمی اب بھی نہیں۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈھنگ کی لڑکی کا ملنا انتہائی مشکل ہے۔ مثلا” لڑکی اگر ایم اے ہے تو خوبصورت نہیں۔ خوبصورت ہے تو لمبی نہیں۔ لمبی ہے تو پتلی نہیں۔پتلی ہے تو امیر زادی نہیں۔ امیر زادی ہے تو گوری نہیں۔ گوری ہے تو سانولی نہیں وغیرہ وغیرہ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ لڑکی ہر لحاظ سے مناسب ہے مگر پٹھان نہیں۔ایک بار تمام خوبیوں والی ایک پٹھان لڑکی مل بھی گئی، لیکن اس کے والد کا انداز گفتگو خان صاحب کو پسند نہ آیا اور یوں وہ لڑکی خان صاحب کی بیوی بنتے بنتے رہ گئی۔ غالباً اب تو آپ کو یقین آ گیا ہوگا کہ خان صاحب اس صدی کے بدقسمت ترین انسان ہیں اللہ ان کی حالت پر رحم کرے ان کے دن بدلے۔