kohsar adart

ایک تختی جو گئے دنوں کا سراغ دیتی ہے۔

عوام نامہ ۔۔۔ احمد آفتاب

ایک تختی جو گئے دنوں کا سراغ دیتی ہے۔
عوام نامہ ۔۔۔ احمد آفتاب
2 نومبر 2023
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ تو ازل سے سمجھ دار تھے۔
جانتے تھے کہ دروازہ مکان ہی نہیں، مکینوں کا بھی چہرہ ہوتا ہے۔ اس لیے تختی بھی سوچ سمجھ کر لگاتے تھے۔ چاہے قبر پر ہو یا آشیانے پر۔
جیسا کہ ۱۹۳۰ع میں بننے والے اس قدیم گھر کے دروازے پر نصب تختی، جو آج بھی اس کے مکینوں کے اعلیٰ شعری ذوق اور عجز و انکسار کی مظہر ہے۔ کیا زوال ہے کہ جس شہر میں کبھی بیرونی دروازوں پر سنگِ مرمر کی تختیاں لگتی تھیں اور خوبصورتی سے فلسفہِ فنا و بقا، حاکمیت اور بندگی، اور انکسار و عجز کو فارسی اشعار سے بیان کیا جاتا تھا۔ وہاں کی نئی بستیوں کے اونچے محلوں کے بھاری آہنی دروازوں پر، آج ہتھیار بند محافظ اور خونخوار کتے مہمان کا استقبال کرتے ہیں اور پیتل کی چمکتی تختی پر صاحبِ خانہ کا نام اتنا بڑا بڑا لکھوایا جاتا ہے کہ دُور سے لازمی نظر آجائے اور خوف پیدا کرے۔ صدر دروازہ کے پٹ، مکین کے باطن کا چہرا بھی کھولتے ہیں۔
یہ تختی جہاں لگی ہے، وہ گھر راولپنڈی کے علاقے ’چٹیاں ہٹیاں‘ میں ہے۔ عرصہ دراز سے یہ علاقہ کمیٹی چوک اور لال حویلی کے درمیان واقع ہے۔ تنگ، طویل گلیوں اور پرانے گھروں سے آباد اس قدیمی کاروباری محلے کی اب وجہِ شہرت، گرم حمام یا بوائلر بنانے والوں کے چھوٹے چھوٹے گھریلو کارخانوں سے ہے۔ انشا جی کہہ گئے تھے۔ اب حسُن کا رتبہ عالی ہے، اب حُسن سے صحرا خالی ہے۔ چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو۔
تختی محض گھر کے مکینوں کا حال ہی نہیں سناتی، گزرتے راہ گیروں کا بھی ماجرا بتاتی ہے جو فارسی شناس تھے۔ سمجھتے تھے کہ مرمریں تختی پر کیا لکھا ہے۔ حیف کہ سو سال سے بھی کم وقت میں اس تختی کو سمجھنے والے ان گلیوں میں معدوم ہوگئے۔ گئے دنوں کا سراغ لے کر جانے کدھر سے آئے اور کدھر چلے گئے۔ اب تو یہاں دھاتی شیٹوں پر پڑنے والی ہتھوڑے کی ضربیں اور ویلڈنگ راڈ کی کریہہ خرخراہٹیں ہی دن رات گونجتی ہے۔
یہ بھی دیکھیے کہ لفظ ’ہٹیاں‘ مقامی زبان میں ’ہٹی‘ کی جمع ہے جس کا مطلب دکان، کاروبار یا مقامِ تجارت ہے۔ لسانیات کے ماہر کہتے ہیں کہ ہٹی کا مآخذ انڈویوروپئین زبانوں سے ہے۔ چیک زبان میں ’ہوُٹ‘ اور پولش زبان میں ’ہوُٹا‘ کا مطلب چھوٹا یا بڑا کاروبار ہے۔ چیک ری پبلک کی ایک بڑی اسٹیل مل کا نام ’نووا ہوُٹ‘ ہے۔ اس لیے جب میں دیکھتا ہوں کہ چٹیاں ہٹیاں میں جاری کاروبار بھی لوہے سے متعلق ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا خبر آہن گروں کی بستی کے نئے مکینوں کا شاید کبھی دوُرپار کے ان خطوں سے کوئی میل ہو۔
کیا پتا ۔۔۔۔ ایسا کبھی ہوا ہو ۔۔۔ لوگ عوام نامہ تو ازل سے رقم کرتے ہی آئے ہیں۔ ہم کوئی نئے تو نہیں۔ صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا!

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More