اساتذہ کی ناکام احتجاجی تحریک کے مُضمرات
امجد بٹ ۔۔۔۔۔۔ مری
اپنے حقوق کے لیے جہاد کرنے والے اساتذہ کرام کی احتجاجی تحریک بالآخر اپنے غیر منطقی انجام تک پہنچ گئی۔ حکومتی مظالم کے خلاف دس روزہ قربانیوں کے باوجود احتجاجی تحریک کو کس طرح اغوا کیا گیا اس کی تفصیل کو سمجھنے کے لیے درجہ ذیل پانچ عنوانات کے تحت بحث کو سمیٹا جا رہا ہے۔
1- اساتذہ کے مطالبات کیا تھے؟
2- حکومتی مؤقف کیا تھا؟
3- پنجاب میں شعبۂ تعلیم کے مرکزی اعداد و شمار کیا ہیں؟
4- اگیگا اور اس کا کردار ؟
5- اساتذہ کے فرائض و ذمہ داریاں
آئیے درج بالا نکات کا بالترتیب مجموعی جائزہ لیتے ہیں۔
ایک معلم اپنے تدریسی دورانیے قریباً 25 سالوں میں کم از کم 5 اور زیادہ سے زیادہ 25 ہزار تَشنگانِ عِلم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر کے ایک نسل تیار کرتا ہے جس کے لیے وہ اپنی زندگی کے قیمتی سال وقف کرتا ہے۔ ہر اُمیدوار کی تعیناتی کے وقت حکومت کے ساتھ تدریسی فرائض کی ادائیگی کے عوض جن مراعات کا تحریری معاہدہ ہوتا ہے حکومتِ وقت نے اُن سے انکار کر کے پنشن کو 30 فیصد کرنے، سالانہ اضافہ ختم کرنے اور مدرس کی بیوہ کو صرف دس سال پنشن دینے کا مکروہ پروگرام تجویز کیا تھا۔ 14 سال سے ایجوکیٹر اساتذہ کی ملازمت کو تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ایک لاکھ بارہ ہزار دو سو چالیس سے لے کر ایک لاکھ اکتیس ہزار خالی آسامیوں پر تعیناتی کیے بغیر حکومت کو سو فیصد نتائج طلب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ پنجاب میں قریباً 3,38,196 سے لیکر چار لاکھ اساتذہ میں سے اکثریت کی تنخواہ 35 ہزار سے شروع ہوتی ہے۔ اڑتالیس ہزار سکولوں میں قریباً ایک کروڑ اُنیسں لاکھ سات سو تینتالیس بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سات ہزار سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکولوں میں سے چار ہزار ادارے پرنسپل کی تعیناتی کے بغیر چل رہے ہیں۔
یکم جون 2023ء سے حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا کہ کل آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی سالانہ تعطیلات جو ملازمت کے آخری سال تک بچ جاتی ہیں، اُن کا ملنے والا یک مُشت معاوضہ (لِیواِنکیشمِنٹ) آخری بنیادی تنخواہ کے بجائے پرانی بنیادی تنخواہ کی مناسبت سے دیا جائے گا۔ اس طرح سکیل کی مناسبت سے ہر ملازم کو 4 سے 18 لاکھ تک کا نقصان متوقع ہے۔
معیار تعلیم کے نام پر 11 ہزار سکول نجی شعبےکے حوالے کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا؟
پنجاب کے ہر ضلع سے 20 اور پورے صوبے میں سے 11 ہزار سکولوں کو نجی شعبوں کے حوالے کر کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کا ایک ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ دراصل بہترین محلِ وقوع ، شاندار عمارات ، وسیع میدان ، صحن اور اضافی رقبے پر مشتمل سکولوں کو اپنے منظورِ نظر دوستوں کی تحویل میں دینا تھا اس کے لیے وزیرِاعلیٰ محسن نقوی نے ایک مہرے کا کردار نبھایا۔ لاہور کے صرف ایک سکول کے مخصوص کمرے میں جا کر وہاں اساتذہ کی غیر حاضر تعداد (جسے حکومت نے خود الیکشن ڈیوٹی پر بھیجا ہوا تھا) اور کمزور معیارِ تعلیم کو بہانہ بنا کر نِجکاری یعنی بہتر معیارِ تعلیم کا جواز پیدا کیا گیا۔
مری شہر کے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں ، ڈویژنل پبلک سکول کے نمائندگان نے باقاعدہ داخلے شروع کر دیئے ہیں جس کے اشتہارات بھی تقسیم ہوئے۔ اسی طرح گوجرانوالہ کے سب سے بڑے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ، جی ٹی روڈ، شیخو پورہ موڑ میں ، ڈی سی او نے خود جا کر خبردار کیا کہ آپ کا سکول پرائیویٹ ہو چکا ہے اور کل 21 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ کے آنے پر آپ یہ ادارہ نئی انتظامیہ کے حوالے کر دیں گے۔ اس سکول میں قریباً چار سو اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ 25 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر مشتمل اربوں کی مالیت کی یہ زمین مع عمارات و سامان کسی زاہد نامی سرمایہ دار کے حوالے کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے اور یہی حال چند اضلاع میں جاری اور بقیہ میں ہونے والا ہے۔
محسن نقوی سرگرم کردار کیوں ادا کر رہے ہیں؟
قارئین اور محکمہ تعلیم سے متعلقہ افراد کو علم ہونا چاہیے کہ محسن نقوی نہ صرف نون لیگ کے ہمنوا نجی ٹی وی چینلوں کا مالک اور حکومتی اشرافیہ کا منظور نظر وزیرِاعلیٰ ہے بلکہ دانش سکول سِسٹم کا چئیرمین بھی ہے جو شہباز شریف اینڈ کمپنی کی نگرانی اور معاونت سے چل رہے ہیں لہذا زیادہ سے زیادہ رقبے اور شاندار محل وقوع ، عمارات اور بہترین نتائج والے سکول پہلے سے ہی ان قبضہ مافیا کی نظر میں کھٹک رہے تھے۔ ان کی نِجکاری کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹ خود اتنے کرپٹ ہیں کہ انہیں اداروں کی اصلاح کے لیے پرائیویٹ افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ دراصل یہ لٹیروں کا وہ ٹولہ ہے جو ہرسیاسی دور میں اپنے منظورِ نظر سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر اس ملک کو نوچ رہا ہے یہاں تک کہ انہوں نے سرکاری سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کے ساتھ مل کر یہاں فیل ہونے والے بچوں کو اگلی کلاسوں میں داخلے کا لالچ دے کر اپنے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخل کیا ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہر ضلع کے 20 ماڈل سکولوں کا انتخاب کر کے ان کو ترقی دینے کے نام پر وہی رنگ کرایا جا رہا ہے جو دانش سکول سِسٹم میں استعمال ہوا ہے۔ ان کے ناقص نتائج اور خستہ حال عمارات کو بہانہ بنا کر پہلے سرکاری خرچے پر ماڈل سکول بنایا جائے گا اور پھر معاہدے کے مطابق پرائیویٹ کرنے کا پروگرام ہے۔ اگر والدین نے اساتذہ کے ساتھ مل کر اس سازش کو ناکام نہ بنایا تو پھر انہی سکولوں میں اپنے بچوں کو ہزاروں روپے دے کر تعلیم دلوانا پڑے گی ۔ کیونکہ موجودہ حکومت ان سکولوں کو ناکام کرنے کے لیے اساتذہ کی خالی آسامیوں پر تعیناتی نہیں کر رہی بلکہ اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں میں سرکاری طور پر الجھا کر طلباء سے دور رکھا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے تعلیمی افسران اور کمشنر حضرات کو مُنشی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
تحریک کی قیادت اساتذہ کو کیوں نہیں دی گئی؟
پنجاب کے 8 لاکھ ملازمین میں سے قریباً 4 لاکھ صرف اساتذہ ہیں جبکہ اگیگا ( آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنز ) پنجاب کے بیالیس سرکاری اداروں کی تنظیموں کے اتحاد کا نام ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگیگا کی سربراہی اساتذہ کے پاس ہو اور وہ اہم اجتماعی فیصلے خود کر سکیں لیکن اس احتجاجی تحریک کی 95 فیصد قُربانیاں اساتذہ نے دیں۔ دھکے،جوتے اور ڈنڈے کھائے ، سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوئے، گھریلو خواتین کو جیل پہنچایا گیا ، ننگے سر سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور کروڑوں بچوں کا تعلیمی نقصان ہوا۔ جنہیں اگیگا نے کیش کرایا اور اپنے من پسند فیصلے کروا کے الگ ہو گئی۔
ملک کی اکثریت جانتی ہے کہ ہر حکومتی اشرافیہ دھوکا دہی اور جھوٹے معاہدوں کی ماہر ہوتی ہے۔ پھر بھی کوئی تحریری معاہدہ اور مطالبات کی منظوری کا مراسلہ لیے بغیر احتجاج ختم کرنا پنجاب حکومت کی وہ چال تھی جس میں اگیگا اشرافیہ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ۔ صرف لاہور کے قریباً 200 اساتذہ کے ساتھ ڈپٹی کمشنر نے رحمان باجوہ اور خالد سنگھیڑہ جیسے افراد کی گرفتاری اساتذہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کی تاکہ اُن کو مہرہ بنا کر انہی کے ذریعے تحریک کو کمزور کیا جا سکے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نِجکاری کے سرکاری نوٹس جاری کیے بغیر تمام عملی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ لیکن جب اساتذہ کا بے مثال احتجاج ہوا تو حکومتی کارندے اُس کی تاب نہ لا سکے اور تحریک کو سبوتاژ کرنے میں بھلائی جانی۔ جس کے لیے انہیں دو قدم پیچھے ہٹ کر اعلان کرنا پڑا کہ ہم نجکاری نہیں کر رہے۔ اگر یہ مذاکرات مریم نواز کیساتھ اور رائے ونڈ کے بجائے کسی سرکاری عہدے دار کے دفتر میں ہوتے تو اگیگا غیر جانبدار کہلا سکتی تھی ۔ لیکن اگیگا نے اساتذہ کے کاندھے پر رکھ کر جو بندوق چلائی ہے اس کے بعد اب پنجاب ٹیچر یونین دوبارہ کبھی ایسا احتجاج کر کے اپنی ساکھ بحال نہیں کر سکے گی ۔
ساری قربانیاں اگیگا کے ذریعے اغوا کرلی گئیں
پنجاب ٹیچر یونین مری کے صدر جناب فیاض عباسی اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ، عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود کپکپاتی ٹانگوں اور لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو کر اپنے جوشِ خطابت سے اساتذہ کا لہو گرماتے رہے اور بہت کامیابی کے ساتھ ضلع مری کے تمام اساتذہ کے ہمراہ احتجاج کو کامیاب بنایا بلکہ حکومتی مؤقف کے خلاف ڈٹے رہے۔ یقیناً یہی حال پورے پنجاب کا تھا لیکن یہ ساری قربانیاں اگیگا کے ذریعے اغوا کرلی گئیں اور اساتذہ کو زبان کے وعدوں پر ٹال دیا گیا۔
کیا یہ ساری تحریک نواز شریف کی آمد پر روک دینا نون لیگ کی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کا شاخسانہ تو نہیں ؟ کیونکہ اساتذہ کی اس باوقار تحریک کا ہراوّل دستہ لاکھوں ایجوکیٹر تھے جنہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن اگیگا نے مریم نواز سے ملاقات کے وقت اُن کے مطالبے (پے اینڈ سروس پروٹیکشن) کو اپنے چارٹر میں شامل ہی نہیں کیا جس سے نہ صرف ایجوکیٹر کو اپنی ملازمت کے اختتام تک 30 تا 80 لاکھ کے نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ اُن کی قید و بند کی صعوبتیں بھی رائیگاں گئیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے جو طبقے (فوج ، عدلیہ ، وزراء و بیوروکریٹ وغیرہ) لاکھوں تنخواہ، کروڑوں کی مراعات اور اربوں کے پلاٹ حاصل کرتے ہیں، کیا یہ اُن عہدوں پر کسی معلم کے پڑھائے بغیر پہنچ گئے ہیں ؟ کیا شہادت کا جذبہ ، انصاف کرنے کی تربیت اور بہترین انتظامی امور کی صلاحیتیں کسی استاذ کی تربیت کے بغیر پروان چڑھ سکتی ہیں ؟ تو کیا اس مراعات یافتہ طبقہ کو اساتذہ سے زیادہ مراعات لیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر کام روک نہیں دینا چاہیے ؟ آپ تمام مقتدر طبقات کے اثاثوں کی پڑتال کر کے دیکھ لیں اور موازنہ کریں کہ اساتذہ کے مقابلے میں رزقِ حلال کسی نے زیادہ کمایا ہے؟
ماہرین سماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد تعلیم اور صحت ہی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں جو اُسے حیوان سے انسان بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں لہٰذا اقوام متحدہ اور پاکستان کے 1973 ء کے آئین دفعہ 25-اے کے مطابق بچوں کی مفت تعلیم اور کوئی منافع حاصل کیے بغیرصحت کی مکمل سہولیات حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اسی حکومت کی ایک شعبے کی حالت زار ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستانی حکومتی اشرافیہ اپنی شاہ خرچیوں کے لیے سالانہ 16 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے ، پی آئی اے سالانہ دو ارب ڈالر کا نقصان کرتا ہے ، چیئرمین سینٹ 12 ملازمین اور 6 سیکیورٹی گارڈ کا سرکاری خرچے پر حق رکھتا ہے ، سرکاری گھر کے فرنیچر کے لیے سالانہ 50 لاکھ ، کرائے کے گھر کے لیے سالانہ 30 لاکھ ، ملکیتی گھر کے کرائے کے لیے بھی 12 لاکھ اور بین الاقوامی سفر پر ایک فرد خانہ کو مفت ہمراہ لے جانے کا حق رکھتا ہے. اس سے زیادہ برا حال ہمارے باقی اہم اداروں اور ان کے اہلکاروں کی مراعات کا ہے جن کا آڈٹ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم تعلیم پر سو روپے کے بجٹ میں سے صرف تین اور صحت پر سالانہ 4 پیسے خرچ کرتے ہیں۔
درجنوں محکموں کے کام اساتذہ سے لے کر سو فیصد نتائج کی توقع کیسے کی جاتی ہے؟
جن اساتذہ سے پڑھ کر ہمارے ملک کے تمام اہم عہدوں پر براجمان افسران و اشرافیہ سوچتی ہے کہ اساتذہ سرکاری سکولوں میں صحیح نہیں پڑھا رہے اُن سے چند سوال پوچھنا تو اساتذہ کا حق ہے۔ کیا آپ اساتذہ کو قوم کی تربیت کے لیے بھرتی کرتے ہیں یا محکمہ صحت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ؟ جب ایک اُستاذ نے ہی گھر گھر جا کر ، دروازوں پر نمبر لگا کر خانہ و مردم شماری کا ریکارڈ تیار کرنا ہے تو محکمہ شماریات کو بند کر دیا جائے ، اگر اساتذہ نے ہی مضرِصحت پولیو قطرے اور پیٹ کے کیڑوں کی ادویات بچوں کو پلا اور کھلا کر اس کا ریکارڈ حکومت کو مرتب کر کے دینا ہے تو پھر محکمہ صحت فُضُول ہے، اسی طرح ووٹ بنانا ، امتحانات و انتخابات منعقد کروانا اساتذہ کا شعبہ ، ذمہ داری اور اُن کے شایان شان نہیں۔ اگر وہ سکول اوقات میں ایسے کام کر رہے ہوں گے تو پھر وہ تدریس کے قابل نہیں رہتے بلکہ اضافی رقم کے لالچ میں پڑھانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ درجنوں محکموں کے کام اساتذہ سے لے کر حکومت اور عوام کس منہ سے سو فیصد نتائج کی توقع رکھتی ہے ۔
مجھے تو لگتا ہے کہ حکومت کے اہم محکمے اساتذہ کے سر پر چل رہے ہیں تو ایسے میں وہ کیا پڑھائیں گے ؟ کیا ایک ماہر سرجن پرائمری جماعتوں کو پڑھا سکتا ہے ؟ کیا ایک درزی وکالت کر سکتا ہے ؟ کیا ایک دکاندار شرعی فتوی دے سکتا ہے؟ کیا ایک معلم جج کے فرائض نبھا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر خدارا اساتذہ سے صرف تدریس کا کام لیا جائے۔ سابق صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے جذبات میں آکر اساتذہ سے صرف تدریس کا کام لینے کا دعوٰی کیا تھا لیکن اُسی نے اس اصول کی سب سے زیادہ نفی کروائی۔
اب سکولوں سے باہر نہ پڑھ سکنے والے پونے تین کروڑ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے بجائے ” مسلم ہینڈ” این جی او کے چیئرمین سید لخت حسین نے ہر ضلع کے 20 اور 41 ضلعوں کے ، کل 11 ہزار سرکاری سکولوں کو اپنی نگرانی میں چلانے کا حکومت پنجاب سے معاہدہ کیا ہے جو اساتذہ کے شدید ردّ عمل کے بعد کھٹائی میں پڑ گیا ہے ۔ حکومت کو اگر ہر کمزور محکمے کو ٹھیک کرنے کے بجائے اُسے پرائیوٹائز کرنا ہی واحد حل نظر آتا ہے تو پاک فوج ، عدلیہ ، جیسے محکموں سے بھی سر کاری مراعات لے کر ٹھیکے پر دے دیا جائے کیونکہ یہ بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں درست نہیں نبھا رہے۔
Implications of the failed teachers' protest movement,اساتذہ کی ناکام احتجاجی تحریک کے مُضمرات