"پاں” نہیں "چھاں” کیجیے
ام عزوہ
بڑے بڑے خوفناک باجوں کے ساتھ آزادی کا جشن منانے والے، جانے آزادی کو کن معنوں میں لیتے ہیں کہ سماعتوں کے دشمن بن کر قہر برسانے کا ٹھیکہ لے لیتے۔اور پھر یوم آزادی کا دن ہمارے بزرگوں کی اس دعا میں گزر جاتا ہے کہ بس کسی طرح رات ہو، یہ بے شرم اپنے پھونپوؤں کا دن منانا ختم کریں اور ہم سکون پائیں۔
یہ دن۔۔جب ہم اپنے بزرگوں سے 1947 کی آزادی کی کہانی سنتے تھے۔ان کے جذبے جوان ان کے غم اور ہجر کی کئی کہانیاں اپنوں سے جدائیوں کا کرب۔۔ان کی دی گئی قربانیاں یوں تازہ لگتیں جیسے کل کی بات ہو۔
ایک جوش ایک ولولہ ان کے لہجوں کا ہمارے دلوں میں پیوست ہوتا اور ایک نئی لگن اور جوش سے ہم بھر جاتے۔
آج کل کے نوجوانوں سے 14 اگست کی تاریخ پوچھ لو تو صحیح نہ بتا سکیں گے۔بس باجا بجانا آتا ہے۔
خوف ہے کہ اگلی نسل سے جب پوچھا جائے گا کہ 14 اگست کا دن کیوں منایا جاتا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ اسے باجوں کا قومی دن قرار دے دیں۔
جس کو دیکھو ایک بڑا سا بھونپو لے کر "پاں پاں” کر رہا ہے۔
ان تمام بھونپو ہولڈرز سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے اس بار جشن آزادی کو صحیح معنوں میں مناتے ہوئے پاں نہیں "چھاں” کیجیے۔
اپنے باجوں کے پیسے بچائیے۔۔اور جا کر پودوں کی نرسری میں لگائیے۔والدین بھی بچوں کو دوسروں کے لیے آزار بنانے کی بجائے ہوش سے کام لیں۔ بچوں کو باجوں کے سٹال پر لے جانے کے بجائے پودوں کی نرسریوں میں لے کر جائیں۔انہی پیسوں سے ان شاء اللہ آپ ایک ننھا سا پودا خرید سکتے ہیں۔پودا خریدیے اور اسے لگائیے۔ پاکستان کو سبز کرنے میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔اور بچوں میں بھی اس جذبے کو ضرور عام کریں۔
آئیے۔۔۔اس بار پاں نہیں چھاں کا آغاز کریں۔