
کیا شکر گزار کے لیے لفظ "مشکور” بولنا غلط ہے؟
راشد عبّاسی
زندہ زبانیں دوسری زبانوں سے اخذ الفاظ کرتی رہتی ہیں اور ایسا انگریزی، عربی، فارسی اور مغرب کی دوسری زبانوں میں ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے کہ زبانوں کے ارتقاء کے لیے یہ تعامل ناگزیر ہے۔
اردو پر عربی اور فارسی کے اثرات نمایاں ہیں۔ عربی زبان جاننے والے احباب جانتے ہیں کہ عربی میں تو اعراب کی تبدیلی سے کئی الفاظ کے معنی یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے وہاں تلفظ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم سیکھتے ہوئے اسی لیے تجوید سیکھنے، سکھانے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ وہ بچے جو قرآن کریم حفظ کرتے ہیں ان کے لیے تجوید پر عبور حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور کئی بچوں کو اس کی تکمیل چھ آٹھ مہینے لگ جاتے ہیں۔
اردو میں اچھے وقتوں میں ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے فصیح اردو سننے کو ملتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ہماری ساری توجہ انگریزی کے برٹش اور امریکن ایکسینٹ پر مرکوز ہو گئی۔
کچھ لسانیات اور زبانوں کا علم رکھنے والے احباب اردو میں استعمال ہونے والے دوسری زبانوں کے تمام الفاظ کو ان کی اصل زبان کے قواعد اور اصولوں کے مطابق استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں اور وہ اپنے نکتہ نظر میں متشدد ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلہ دوسرے نکتہ نظر کے حامل اہل علم اس پر زور دیتے ہیں کہ جو لفظ اردو نے اپنا لیا ہے اسے اردو کے لفظ کے طور پر استعمال ہونا چاہیے۔
جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ (ساقی فاروقی)
"جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔
(انشاء اللہ خاں انشاء – دریائے لطافت)
عبدالماجد دریا آبادی بھی یہی نظریہ رکھتے تھے کہ جب کسی زبان میں کسی غیر زبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔
ایک لفظ جس پر اکثر مکالمہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ "مشکور” ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور وہاں اس کے معنی ہیں "جس کا شکر ادا کیا جائے” جب کہ "شاکر” کے معنی ہیں "شکر ادا کرنے والا”
اردو میں لفظ مشکور کے معنی "شکریہ ادا کرنے والا” لیا جاتا ہے۔ اردو بولنے، لکھنے والا جب اسے استعمال کرتا ہے تو وہ اسے اردو کے لفظ کے طور پر برت رہا ہوتا ہے اور ان معنوں میں اسے ان نابغہ روزگار عالموں نے بھی اردو میں استعمال کیا ہے جو عربی زبان کے بھی عالم تھے۔
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں!
علامہ شبلی نعمانی
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
لیکن کچھ لفظ اردو میں اپنی اصل (عربی، فارسی) کے مطابق ہی استعمال ہوتے ہیں ان میں اعراب کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔ درج ذیل مثال سے وضاحت ہو جائے گی
مُنْتَظِر: Mun-taa-zir
انتظار کرنے والا، راہ دیکھنے والا، آس لگانے والا۔۔۔
اب کون مُنْتَظِر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
مُنْتَظَر: Mun-taa-zar
جس کا انتظار ہو، جس کا انتظار کیا جائے، جس کی راہ دیکھی جائے۔۔
کبھی اے حقیقتِ مُنْتَظَر ! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
۔۔۔۔۔ راشد عباسی ۔۔۔۔۔