kohsar adart

کوہسار سالانہ سیمینار، رونمائی کتب اور مشاعرہ

خدائے بزرگ و برتر کے فضل عام و انعام، نبی مکرم کےفیض خاص اور اجداد کی پاکیزہ روحوں کے طفیل 2020ء میں آغاز کردہ سالانہ علمی، ادبی، تاریخی، ثقافتی اور شعری مجلس کا چوتھا پروگرام بھی توقعات سے بڑھ کر کامیاب رہا۔

موسم گرما میں مری کے اژدھام سے بچ کر سنبل بیاہ کے کنج عافیت میں احباب کا دور و نزدیک سے بلا تکان اور تواتر سے چلے آنا اس مٹی کے فیض یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔

ہر برس اس پروگرام کے شرکاء کی تعداد اور تنوع اس کی اہمیت اور خاصیت پر مہر استناد ثبت کرتا ہے۔

گزشتہ برس اگر بہاولپور سے جہانگیر مخلص اور لاہور سے طاہرہ جالب رونق محفل تھے تو اس بار راولاکوٹ سے فاروق صابر، مظفرآباد سے اعجاز نعمانی اور ایبٹ آباد سے احمد ریاض بزم کی رونق بڑھانے آئے۔ صدارت انہی کی تھی جن کے یہ شایان شان ہے یعنی محترم المقام جاوید صدیق۔

اس برس علامہ مضطر عباسی، جناب سلیم شوالوی اور بابو محمد انور مرحوم کی یاد میں پہلا سیشن مختص تھا۔

جس کی صدارت کوہسار کے نامور سپوت نذیر عباسی ایڈووکیٹ نے کی۔ خطہ کوہسار کے عظیم اور بے مثل معلم اور سماجی راہنما جناب عرفان صاحب نے بطور خاص اس سیشن میں شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔ ان نابغوں کی حیات اور خدمات کے ذکر کی سعادت جناب نسیم عباسی ایڈووکیٹ جناب سعید احمد سعود اور راقم کے حصے میں آئی۔

دوسرا سیشن سیمینار کوہسار مری ماضی، حال اور مستقبل پر مشتمل تھا،  کی صدارت جناب جاوید صدیق نے کی۔  جبکہ پروفیسر کامران خان، وجیہہ الاسلام عباسی اور سندھ سے آئے مہمان پروفیسر مہر منور نے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر آفتاب احمد اور پروفیسر ڈاکٹر عابد عباسی وقت کی کمی کے باعث گفتگو نہ کر سکے۔

تیسرے سیشن کا پہلا حصہ رونمائی کتب پر مشتمل تھا، جس کی صدارت معروف صحافی اور روزنامہ امت کے گروپ ایڈیٹر جناب سجاد عباسی نے کی۔

اس حصے میں جن کتب کی رونمائی ہوئی ان میں پہاڑی زبان کے رسالے رنتن کے "مضطر عباسی نمبر” اور پہاڑی شاعری کے "غزل نمبر” کے علاوہ احمد ریاض کے شعری مجموعے "آنکھیں یقیں چراغ” نیز گوجر خان سے آئے مصنف حکیم عبدالروف کیانی کی کتاب "مبادیات فلسفہ” کی رونمائی بھی شامل تھی۔ اس حصے میں  راشد عباسی اور جناب احمد ریاض نے گفتگو کی۔

پروگرام کے آخری حصے یعنی مشاعرے کی صدارت جناب فاروق صابر نے کی۔   مہمان خصوصی جناب اعجاز نعمانی تھے جب کہ احمد ریاض مہمان اعزاز تھے۔

جن شعراء نے اپنا کلام سنا کر بے پناہ داد سمیٹی ان میں باؤ جمیل احمد جمیل، تیمور ذوالفقار، اظہر حیات، نعمان عباسی، نعمان ناصح، راشد عباسی اور اشفاق کلیم عباسی شامل تھے۔

"پہاڑی زبان اساں نی پچھان” گروپ کی ٹیم حماد سکندر عباسی، ظہیر عباسی اور نعمان عباسی پروگرام کے آغاز سے اختتام تک پروگرام کی لائیو کوریج کرتے رہے۔

اس عنایت کے فیض دور دراز علاقوں اور غیر ممالک میں موجود احباب کو بھی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔

 

پروگرام کے آغاز سے اختتام تک شرکائے محفل پورے ذوق اور انہماک کے ساتھ تشریف فرما رہے۔

سامعین کی تعداد اور وقعت کے اعتبار سے بھی یہ محفل ہر اعتبار سے جاندار، باوقار اور پربہار تھی۔ گوجر خان، کہوٹہ، کوٹلی ستیاں، مری، گلیات، ایبٹ آباد اور آزاد کشمیر کے اضلاع کے مہمان صرف یہ بزم سجانے کے لیے ہی تشریف لائے۔ بالخصوص نوشہرہ سے میرے دوست فیملی سمیت بطور خاص تشریف لائے۔

اس پروگرام کے بارے میں احباب کی آراء پہلے پروگراموں سے زیادہ حوصلہ افزا اور ستائش آمیز تھیں۔

اس بزم کے آغاز کا مقصد بھی اب رفتہ رفتہ پورا ہونے لگا ہے یعنی احباب اب اس نہج پر سوچنے لگے ہیں کہ اس طرح کے چھوٹے بڑے پروگرام کوہسار کے مختلف علاقوں میں ماہانہ بنیادوں پر تواتر سے منعقد کیے جائیں۔

ان تقاریب کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ مادیت اور نام نہاد ترقی کے ستائے ہوئے لوگ اپنے اجداد کی پاکیزہ روحوں کے جلو میں مل بیٹھ کر پھر سے جینے کے بہانے ڈھونڈیں۔

خوش آتا ہے جہاں کو ثابت و سیار کا میلہ
ہم اہل دل بپا رکھتے ہیں یاد یار کا میلہ

جیاں بیٹھیں وہیں میلہ لگے ہے خاکساروں کا
فقیروں کو تو زیبا ہی نہیں دربار کا میلہ

دریدہ دامنوں کو اک یہی حسرت ہے مدت سے
وہ اب کے آئیں شاید دیکھنے کوہسار کا میلہ

چراغاں دیکھنے اب کون جائے شہر خوباں میں
ادھر ہی دیکھ لیں گے گاؤں کے تہوار کا میلہ

 

سنبل بیاہ سے محبتوں کے ساتھ
اشفاق کلیم عباسی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More