
کلام اقبالؒ (پیام مشرق) لالہ طور
بشکریہ کاروان اقبال سوشل میڈیا گروپ
اگر کردی نگاہ بر پارہ سنگ
زفیض آرزوی تو گہر شد
بزرخود را مسنج ای بندہ زر
کہ زر از گوشہ چشم تو زرشد
کردی: تونے کی ہوتی
نگاہ: نظر
بر: پر
پارہ سنگ: پتھر کے ٹکڑے پر
ز: سے
گہر: ہیرا
بزر: سونے کو
بندہ زر: دولت کا غلام
زر: سونا
مسنج: مت سوچ (یہاں تولنامراد ہے)
گوشہ چشم: محبت کی نگاہ
زرشد: سونا بنا
ترجمہ: اگر تو نے پتھر کے ٹکڑے پر نگاہ کی ہوتی تو وہ تیری آرزو کے فیض سے ہیرا بن جاتا اے دولت کے غلام خود کو دولت کے معیار پر رکھ کر مت سوچ کیونکہ یہ سونا بھی تیری ہی نگاہ انتخاب کی تاثیر سے سونا بنا ہے
مفہوم: انسان کی سوچ اسکا انتخاب اسکی چاہت اسکی آرزو اصل معیار ہے۔ اگر انسان نے سونے کی بجائے پتھر کو اہمیت دی ہوتی تو سونا ایک حقیر چیز ہوتا۔ یہی مٹی جسے انسان حقیر سمجھتا ہے بالآخر انسان کو اسی میں پیوند ہوجانا ہےہاے افسوس انسان اپنی خودی سے بے خبر ہے انسان کا اصل معیار یہ دنیائے آب و گل نہیں اور نہ ہی اسکی کشش و رنگینی بلکہ اسکی روح ہے جسے چمکانے کیلئے انسان بالکل تیار نہیں وہ سونے اور جواہرات اور ظاہری کشش کا پرستار بن کررہ گیا ہے لیکن اسکا نتیجہ بالآخر مصنوعی خوشی ہے جس کا وجود اسے سکون نہیں دے سکتا
دوسرا مفہوم: اے مال و زر کے پرستار انسان تو اگر چاہتا تو پتھر تراش کرانہیں ہیرے جواہرات سے زیادہ اعلی اور بے پایاں کردیتا تو جس زر کی تلاش میں ہے اس سے کہیں زیادہ دولت تیرے سینے میں خودی کی صورت میں پوشیدہ ہے کاش تو سونے جواہرات کی بجائے اپنی ذات کی تلاش میں نکلتا اور اپنے من کے اندر شناوری کرکے ایک نیا جہان تلاش کرتا جو اس جہان فانی سے کہیں زیادہ بے پایاں اور اعلی ہے