رنتن”، پہاڑی ادبی مجلہ”

پہاڑی ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک وسیع زبان ہے۔ جس کا لسانی جغرافیہ ہزاروں مربع میل پر محیط ہے تو اس کے بولنے والوں کی تعداد لاکھوں ہا ہے۔ ریاست جموں کشمیر، مری، گلیات اور ملحقہ علاقوں میں بولی جانے والی "پہاڑی” ماہرین لسانیات کی ایک بڑی تعداد کے مطابق مغربی پنجابی کی ذیلی شاخ ہے۔ جب ریاست جموں کشمیر اور نواحات میں بدھ مت کو عروج حاصل ہوا تو اس کی تبلیغ و ترویج کے لیے سنسکرت جیسی مشکل اور عالمانہ زبان کی جگہ پہاڑی کا انتخاب ہوا کہ عوامی بولی ہونے کے باعث عوام الناس کے لیے اس کی تفہیم زیادہ آسان تھی۔ وہ زمانہ پہاڑی زبان کے عروج کا تھا۔ اسی عہد میں پہاڑی زبان کے لیے شاردا رسم الخط ایجاد و مستعمل ہوا۔ یاد رہے کہ شاردا وادی نیلم کا ایک خوب صورت مقام ہے جہاں بدھ عہد کی یونی ورسٹی کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ اسی مقام کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں اس زمانے میں بدھ علماء کی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں دنیا بھر سے مندوبین شریک ہوئے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ شاردا محض ایک مقام، ایک یونی ورسٹی اور ایک رسم الخط نہیں بلکہ ایک بھرپور دیس اور ایک مکمل تہذیب کا نام ہے۔ بہرحال پہاڑی زبان ریاست اور ملحقہ علاقوں میں بدھ ترغیب و تبلیغ کے لیے برتی جانے والی ایک بڑی زبان رہی۔ بدھ مت کے علاقائی زوال کے بعد پہاڑی بھی اگرچہ علمی اور تحریری سطح پر انحطاط کا شکار ہوئی لیکن لاکھوں لوگوں کی "ماں بولی” کے طور پر زندہ رہی۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ "پہاڑی” میں بھی نئے رجحانات داخل ہوئے۔ اور پھر اس کے لیے نستعلیق رسم الخط برتا جانے لگا۔ یہ یقینا عربی، فارسی اور اردو کے زیر اثر ہوا۔
پہاڑی زبان کا ایک عہد زریں میاں محمد بخش کے نام جاتا ہے۔ جنھوں نے اپنے صوفیانہ کلام کے ذریعے ایک جہان کو متاثر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد ایک عرصہ تک پہاڑی ایک "پٹی پتھی” بولی رہی۔ پھر سرینگر میں قائم ہونے والی کشمیر کلچرل اکیڈمی نے اس کے تحفظ و ترویج کے لیے کام کا آغاز کیا۔ اور بلا تعطل اپنا کام جاری رکھا۔ اس کے زیر اثر آزاد کشمیر میں بھی پہاڑی زبان کی بقا و فروغ کے لیے کچھ لوگ سامنے آئے، جن میں سلیم رفیقی، مشتاق شاد، مظفر احمد ظفر، صابر آفاقی، محسن شکیل، نذیر تبسم اور علی عدالت وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب مری اور گلیات کے اہل علم پہاڑی زبان کی ترویج کے لیے آگے بڑھے۔ ان میں محترم محبت حسین اعوان، سلیم شوالوی، مسعود آکاش، اختر رضا سلیمی، پروفیسر اشفاق کلیم عباسی ، شکیل اعوان اور راشد عباسی سمیت کئی معتبر نام شامل ہیں۔ انھی احباب میں سے کچھ نے "انجمن فروغ پہاڑی زبان” قائم کی اور اسی کے زیر اہتمام پاکستان سے پہاڑی زبان کا اولین ادبی مجلہ رنتن” شائع کر رہے ہیں۔” "رنتن” قوس قزح کا خوبصورت پہاڑی نام ہے۔ یہ سرنامہ اس خوبصورت مجلہ کے لیے بے حد موزوں و مناسب ہے۔ "رنتن” کے مدیر راشد عباسی ہیں جو اردو کے علاوہ پہاڑی کے قابل لحاظ ادیب و شاعر ہیں۔
یاد رہے کہ "رنتن” سے پہلے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں قائم کلچرل اکیڈمی کے زیر انصرام "شیرازہ’ اور "استا ادب” جیسے موقر پہاڑی جریدے شائع ہو رہے ہیں۔ جب کہ عالمی پہاڑی ادبی سنگت برطانیہ سے شمس الرحمان اور علی عدالت وغیرہ "چٹکا” شائع کرتے ہیں۔
"رنتن” ایک مختصر مگر جامع مجلہ ہے۔۔ جس کے آغاز میں احمد حسین مجاہد کی حمد ہے تو اختر رضا سلیمی کی نعت۔۔ ازاں بعد مدیر مجلہ کا لکھا خوبصورت و بامعنی اداریہ ہے۔ اگلے صفحات پر محبت حسین اعوان، ممتاز غزنی، یاسر کیانی، شاہد لطیف ہاشمی، اکمل محمود عباسی، عتیق سہراب عباسی اور مادری زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوشاں انڈس کلچرل فورم کے بانی نیاز ندیم کے مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح افسانوں میں صفورہ زاہد، محبت حسین اعوان اور راشد عباسی کے خوبصورت افسانے اور لوک کہانیوں میں رڑھ بڈھی، لالچ اور ادھا پہیہ جیسی معروف پہاڑی لوک کہانیاں شامل ہیں۔
طنز و مزاح کے باب میں حماد سکندر عباسی، شکیل اعوان اور راشد عباسی کی خوبصورت تحریریں موجود ہیں۔ جب کہ شاعری کے حصے میں سید امتیاز نسیم ہاشمی، ممتاز غزنی، علی احمد کیانی، منیر عباسی، نعمان عباسی، شکیل اعوان، مسعود آکاش، فاروق انوار مرزا، اختر رضا سلیمی، اشفاق کلیم عباسی ، سلیم شوالوی، نذیر اعوان قاصر، ذی ایم بسمل، محمد آصف مرزا اور حافظ عبدالرشید کی تخلیقات شامل ہیں۔ شعری تخلیقات میں غزل کا حصہ بہت زیادہ ہے، جو پہاڑی میں موجود تخلیقی صلاحیت کا کھلا اظہاریہ ہے۔ رنتن کے اگلے صفحات پنجابی، پوٹھوہاری، سرائیکی، و ہندکو زبانوں کے شعراء کے کلام سے جگمگا رہے ہیں۔۔ یوں رنتن مختلف لسانی رنگوں سے بنی، سجی ایک خوبصورت قوس قزح ہے۔ جو ہر ماں بولی سے محبت کا اشاریہ بھی ہے۔
رنتن بلا شبہ پہاڑی زبان کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت اور سنگ میل ہے۔ جس کے لیے "انجمن فروغ پہاڑی زبان” اور راشد عباسی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ رنتن میں شامل مختلف اصناف پہاڑی زبان کے تخلیقی جوہر کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کے ایک مکمل زبان ہونے کی دلیل بھی ہیں۔ اس مجلے میں جہاں لوک ادب کا ذائقہ ہے وہاں جدید تخلیقی سواد بھی پوری طرح موجود ہے جو اس کے بلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ثروت مند اور ثمر بار ہونے کی علامت بھی ہے۔ "رنتن” بلا شبہ بہترین ادبی تخلیقات سے مزین خوبصورت گلدستہ ہے۔ جس کی خوشبو چارسو پھیلی محسوس ہوتی ہے۔ دیگر ماں بولیوں کی "رنتن” میں موجودگی پہاڑوں، پہاڑیوں اور پہاڑی کی کشادہ دلی اور اعلی ظرفی بھی ہے اور ماں بولیوں کی ترویج کے لیے باہم مل کر جدوجہد کا پیغام بھی۔
خوبصورت پہاڑوں سے نظر آنے والی "پہاڑی” کی یہ رنتن ایک یادگار حوالہ ہے۔ خدا دیر و دور تک باقی و زندہ رکھے۔ آمین۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان