اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ظلم وجبر کا انتہائی دور شروع کر تے ہوئے ایسے مزید قوانین نافذ کئے گئے جن کے تحت بھارت مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں کسی قسم کی بھی جائیداد کو مستقل طور پر ضبط کرنا بھی شامل کیا گیا اور اب تک ایک ہزار سے زائد رہائشی، کمرشل عمارات اور آراضی کو مستقل طور پرضبط کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی محض بات کر نے کے الزام میں گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور پبلک سیفٹی ایکت کے تحت محض امکان کے نام پر وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں افراد کو جیلوںمیں قید کیا گیا جن میں ضعیف بزرگ افراد کے علاوہ متعدد صحافی  اور انسانی حقوق تنظیموں کے نمائندے بھی شامل تھے۔مقبوضہ کشمیر میں5اگست2019کے اقدام کے وقت متعین ہندوستانی گورنر ستیا پال ملک نے انڈین میڈیا آرگن ” دی وائر” کے صحافی کرن تھاپر کو دیئے گئے ایک وڈیو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ”ہندوستانی حکومت نے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے تھے کہ وہاں نہ کتا بھونک سکے اور نا ہی چڑیا چہچہا سکے”۔

اذان دینے پر 22 مسلمانوں کی شہادت،یوم شہدائے کشمیر آج منایا جا رہا ہے

اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے افسران کی تعیناتی کا عمل شروع کیا گیا، مقبوضہ کشمیر کی زمینوں کو صنعتی ترقی کے نام پر بھارتی افراد کو الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، لاکھوں کی تعداد میں غیر ریاستی افراد یعنی بھارتی شہریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے باشندے قرار دینے کے سرٹیفیکیٹ جاری کئے گئے ۔یعنی مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگریفک تبدیلی کے منصوبے پہ تیزی سے عمل شروع کر دیا گیا۔کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاںاسٹیٹ لاز آرڈر 2020 کے نفاذ پر بھارتی پارلیمنٹ کے ایک سینئر’ بی جے پی’ رکن مسٹر سبرامنیم سوامی نے واضح طور پر کشمیر کے لیے بی جے پی حکومت کے مستقبل کے منصوبوں کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح کشمیر اس سے مستثنی کیسے ہو سکتا ہے۔ مسٹر سوامی آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کو متعدد سطحوں پر کالعدم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔انڈیا کی حکمران ‘ بے جے پی’ کے سابق نائب صدر بلبیر پنج نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور انڈیا میں مدغم کرنے کے تین سال پورے ہونے کے موقع پر ایک مضمون میں لکھا ہے کہ” دفعہ 370اور35Aکے ختم کئے جانے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میںانڈیا کے 890 قوانین نافذ ہوئے، مقبوضہ کشمیر کے205قوانین ختم کئے گئے اور129قوانین میں ترمیم کی گئی۔
ٍیوں تو ہندوستان کی طرف سے کشمیر کو ہندوئوں کا قدیم مقدس علاقہ قرار دیتے ہوئے کشمیر پر قبضے کو ہندوستان کا حق قرار دینے کی کوشش کافی عرصے سے ہو رہی ہے تاہم بگزشتہ چند سال سے ہندوستان کی اس کوشش میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ہندوستانی حکومت کشمیر پر اپنا حق جتلانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کشمیرسے متعلق ہندو مت کا حربہ ا بھی ستعمال کر رہی ہے،یعنی ہندوستانی حکومت کشمیر سے متعلق مذہبی کارڈ کا استعمال کر رہی ہے۔امرناتھ یاترہ کے سلسلے میں تقریبا ایک ہزار کنال آراضی سہولیات کے نام پر الاٹ کی گئی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ہندو مت کے مختلف تہوار خصوصی طور پر دھوم دھام سے منانے کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ان میں بھارت سے یاتریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد لانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔اسی حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے ٹیٹوال علاقے میں نیلم دریا، کشن گنگا کے کنارے شاردہ پیٹھ کے نام سے ایک مندر تعمیر کیا گیا ہے اور ہندوستان بھر سے ہندو یاتریوں کو بڑی تعداد میں اس مقام پہ لانے کی ترغیب میں بھی تیزی لائی گئی ہے۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس مندر کے ذریعے آزاد کشمیر کے شاردہ کے مقام پہ قائم بدھ مت کی قدیم یونیورسٹی کے کھنڈرات میں ہندو مندر کی تعمیر اور وہاں ہندو یاتریوں کو لے جانے کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کے ان بھارتی اقدامات پر اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی پونین سمیت انسانی حقوق و دیگر کئی عالمی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق اپنی متعدد خصوصی رپورٹس جاری کرتے ہوئے بھارت کے ظلم و جبر کے کردار کو عریاں کیا اور بھارتی اقدامات کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر کی صورتحال سے متعلق بند کمرے کا ایک خصوصی اجلاس ہوا اور امریکی پارلیمنٹ میں کشمیر کے موضوع پہ ایک خصوصی سماعت بھی ہوئی۔بھارت کے ان اقدامات کے باوجود عالمی سطح پہ ریاست جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور عالمی اداروں میں ریاست جموں وکشمیر بدستور ایسے متنازعہ خطے کے طور پر موجود ہے جس کا پرامن اور منصفانہ فیصلہ بشمول  اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کیا جانا ابھی باقی ہے۔

 مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی یاترا میں شامل ہوگئی ہیں۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارت کی فوج کشی اور ہر شعبے میں ظلم و جبر کی انتہا پر مبنی کاروائیوں کے فیصلہ کن اقدامات کو پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے جواب میں پاکستان کے ارباب اختیار محض وزارت خارجہ اور حکومتی عہدیداران کے بیانات تک ہی محدود نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پہ عالمی اداروں اور عالمی برادری سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عملی اقدامات کرے جبکہ اس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ عالمی ادارے اور عالمی برادری اسی وقت مسئلہ کشمیر کا نوٹس لے سکتی ہے کہ جب پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر، کشمیر کاز سے متعلق عملی اقدامات پر مبنی سخت سٹینڈ لیا جائے۔ یوں تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنی کمانڈ کی ترجیحات میں کشمیر کاز کو اولین ترجیحات میں رکھا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے کشمیر کاز سے متعلق سیاسی اقدامات نقاہت کا شکا ر ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ کشمیر کاز سے متعلق سیاسی اقدامات کو معطل ہی نہیں بلکہ منجمد رکھا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کی صورتحال میں پاکستان کشمیر سے متعلق سوگ منانے کی صورتحال میں محدود نہ رہے کیونکہ یہ مسئلہ حقیقی طور پر پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے منسلک و مربوط معاملہ ہے اور اس متعلق محض بیانات میں محدود رہتے ہوئے بے عملی کی صورتحال کا مطلب پاکستان کے دفاع کے بنیادی تقاضے کو فراموش کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔