’جی سر۔ خون چاہیے؟۔۔ اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا

عوام نامہ ۔۔۔۔۔ احمد آفتاب
awamnama@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے ایک دوست کی فیس بک وال پر پڑھا۔
"شریف بس وہی ہے جس کو موقع نہیں ملا۔”
میں پڑھ کر دکھی سی ہنسی ہنس دیا۔
لوگ بھی کتنی بڑی بڑی باتیں کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں۔
کچھ جانے بغیر۔ کچھ سمجھے بغیر۔
ان لوگوں کو میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
صرف یہ بتانے کے لیے کہ جناب۔ اس دنیا میں شریف لوگ ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کو موقع بھی ملتا ہے اور وہ موقع سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ مگر وہ موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
کیونکہ وہ جینوئن شریف ہوتے ہیں۔
اور ایسے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
رات ہوچکی تھی اور میں بلڈ بنک کے باہر کھڑا تھا۔
وہاں ایک دوست کے ساتھ آیا تھا، خون کا انتظام کرنے۔
اس کی والدہ کا آپریشن تھا اور فوری طور پر دس بوتل خون کی ضرورت تھی۔
پانچ بوتل کا ایکسچینج میں انتظام ہوچکا تھا مگر پانچ کی مزید ضرورت تھی۔ آپریشن میں ایک گھنٹا باقی تھا اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ دوست بلڈ بنک کے اندر تھا اور جاننے والوں کو لگاتار فون کررہا تھا۔
میں بے خیالی میں چلتا ہوا عمارت سے باہر آکر روڈ پر کھڑا ہوگیا تھا۔
’جی سر۔ خون چاہیے؟۔۔ اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا۔
پلٹ کر دیکھا تو سامنے دبلا پتلا سا لڑکا کھڑا تھا۔ چادر لپیٹے، جینز کی پرانی پینٹ شرٹ میں ملبوس۔
’ہاں‘۔ میں نے جواب دیا۔ ’آپ کے پاس ہے؟‘۔
’ہاں سر‘۔ وہ قریب آکر بولا۔ ’تین ہزار کی ایک بوتل دوں گا۔ کب چاہیے؟‘۔
میں اس کو دیکھ کر شش و پنج میں پڑگیا۔ مجھے لگا جیسے وہ پیشہ ور خون فروش ہے۔ میں نے ایسی کئی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ بلڈ بنکس کے آس پاس خون بیچنے والے پھرتے ہیں جن میں سے اکثر نشے باز یا ایڈز کے مریض ہوتے ہیں۔ وہ میری نظروں سے شک بھانپ گیا۔
’نہیں سر۔ قسم اللہ پاک کی۔ میں خون بیچتا نہیں ہوں۔ عادی خون بیچنے والا نہیں ہوں میں۔ میں جاب کرتا ہوں‘۔ وہ جلدی سے بولا اور اپنی جیب سے ایک پرائیویٹ کمپنی کا کارڈ نکال کر دکھایا۔ عہدے کے خانے میں آفس اسسٹنٹ لکھا تھا۔
’سر آج بجلی کا بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے اور میرے پاس پیسے کم ہیں۔ اگر بل جمع نہیں ہوا تو لائٹ کٹ جائے گی اور میری ماں کو بہت تکلیف ہوگی۔ بس اس لیے ادھر آیا ہوں سر۔ آپ یقین کریں‘۔
میں اس کی بات سے چند لمحوں کے لیے سُن ہوکر رہ گیا۔
آس پاس کی گاڑیوں کا شور یکدم ختم ہوگیا۔
’پلیز سر۔ اگر آپ کو خون چاہیے تو بتادیں‘۔ وہ شرمندگی سے بولا۔ ’آپ کی مہربانی ہوگی‘۔
میں سوچ میں پڑگیا۔ بل جمع کرانے کے لیے تصدیق کرکے تین ہزار روپے میں اس کو ویسے بھی دے سکتا تھا۔ مگر ابھی خون کی بھی اشد ضرورت تھی۔ عجیب صورت حال ہوگئی تھی۔
پھر میں نے اس کا خون خریدنے کا فیصلہ کیا۔ بات گھٹیا تھی مگر کوئی چارا نہیں تھا۔ یوں بھی ایک بوتل سے اس کا کچھ بگڑنا نہیں تھا اور اس کو پیسے بھی مل جانے تھے۔ اس کی بجلی بچ جاتی، ماں کو تکلیف نہیں ہوتی اور ہمیں ایمرجنسی میں خون کی ایک اور بوتل میسر ہوجانی تھی۔ ہم سب کا کام ہوجاتا۔
’ٹھیک ہے‘۔ میں نے کہا۔ ’چلو اندر چل کر خون دے دو۔ میں تمہیں تین ہزار دے دوں گا‘۔
میری بات سن کر اس کا چہرا کھلِ اٹھا۔
’ٹھیک ہے سر۔ چلیں‘۔ وہ جھجک کر بولا۔ ’بس ایک ریکوسٹ ہے‘۔
’بولیں‘۔ میں نے کہا۔
’سر پہلے چل کر میرا بل جمع کرادیں‘۔ وہ گھگھیا کر بولا۔ ’دن ختم ہونے والا ہے اور پھر بل جمع نہیں ہوگا۔ میرا دوسرا مہینے کا بل ہے تو پھر بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ آپ یقین کریں سر۔ قسم اللہ پاک کی۔ میں اس کے بعد آپ کے ساتھ آکر خون دوں گا‘۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔
میرے پاس وقت نہیں تھا۔ اس لیے بحث نہیں کی۔ فون کرکے بلڈ بنک میں موجود دوست کو بتایا کہ ایک بوتل خون کا مزید بندوبست ہورہا ہے۔ ابھی دس منٹ میں واپس آتا ہوں۔ وہ میرا انتظار کرے۔ یہ کہہ کر ہم پیدل ہی قریبی دکان کی طرف چل پڑے۔
وہاں پہنچ کر اس نے میری طرف ہاتھ پھیلا دیا تاکہ اسے تین ہزار روپے دے دوں۔ میں نے پیسے نکالنے کے لیے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کافی سارے پیسوں میں سے ایک ہزار کے تین نوٹ الگ کرکے اسے دے دئیے۔ وہ کائونٹر پر بل جمع کرانے لگا۔ اس دوران مجھے ایک کال آگئی تو میں پلٹ کر کائونٹر سے تھوڑا دور نکل آیا۔
اپنی بات ختم کرکے میں واپس پلٹا تو وہ میرے پیچھے ہی کھڑا ہوا تھا۔
’بہت بہت شکریہ سر‘۔ وہ عاجزی سے بولا۔ ’یہ لیں آپ کے پیسے‘۔ اس نے پانچ ہزار کا ایک نوٹ میری طرف بڑھادیا۔
’میرے پیسے‘۔ میں نے حیرت سے کہا۔ ’کون سے پیسے؟۔ میں نے تو آپ کو تین ہزار دئیے تھے۔ یہ تو میرا نوٹ نہیں ہے‘۔
’نہیں سر‘۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’آپ کا ہی ہے۔ جب آپ نے پیسے نکالے تھے نا جیب سے۔ تب آپ کا یہ نوٹ گرگیا تھا۔ میں نے اٹھا لیا تھا مگر آپ فون پر بات کررہے تھے تو پھر اب واپس کررہا ہوں۔ یہ رکھ لیں‘۔
میں اس لڑکے کی شکل دیکھتا رہ گیا۔
کیا عجیب انسان تھا وہ۔ اس کے پاس بجلی کا بل جمع کرانے کے تین ہزار نہیں تھے۔ وہ اپنا خون بیچ رہا تھا بل جمع کرانے کی خاطر۔ اس کے پاس موقع تھا میرے پانچ ہزار روپے رکھنے کا۔ مگر اس نے موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ میرا نوٹ واپس کردیا تھا۔
ہم ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بلڈ بنک واپس آگئے۔ وہ میرے ساتھ اندر گیا۔ بلڈ بنک والوں نے اس کا خون چیک کیا۔ پھر لٹا کر اس کا ایک بوتل خون نکال لیا۔ اس دوران اس نے ہنس کر مجھے ہاتھ ہلایا اور پھر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔
خون دے کر، اسے اسٹاف نے ایک جوس پلایا اور تھوڑی دیر لیٹنے کا کہا۔ اس کے بعد بھی جب وہ اٹھا تو ہلکا سا لہرایا۔ یقینی طور پر کمزوری سے چکرا گیا ہوگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور پھر میں اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔
’سنو برادر۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے‘۔ سڑک پر پہنچ کر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ’کیا تم نے کھانا کھایا تھا؟‘۔ میں نے پوچھا۔ اس نے سر جھکا کر نفی میں ہلایا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ سوال پہلے کیوں نہیں کیا۔ میں نے جیب سے پانچ ہزار کا وہی نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھادیا۔
’لو یہ رکھ لو آپ‘۔
’نہیں سر‘۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’آپ سے تین ہزار چاہیے تھے۔ وہ میں نے لے لیے۔ بس آپ کا بہت بہت شکریہ‘۔ وہ واپس جانے کے لیے پلٹ گیا۔
’نہیں ۔ رکو‘۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑ لیا۔ ’مجھے شرمندہ مت کرو اور یہ پیسے رکھ لو۔ میری طرف سے تمہاری امی کے لیے تحفہ ہے۔ پلیز۔ انکار مت کرو‘۔
میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں رکھ دیا۔ پھر اسے گلے لگایا۔ ماتھا چوما اور اس کی مشکلیں حل ہونے کی دعا کی۔
وہ اندھیری سڑک پر چلتا ہوا گم ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب۔ ایسا نہیں ہے۔
دنیا میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں۔
اور وہ موقع ملنے پر، موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Yes sir Need blood? Suddenly a voice startled me,’جی سر۔ خون چاہیے؟۔۔ اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا