شکریہ اہلیانِ کوہسار

معاشرے میں اکثریت اہلِ خیر کی ہوتی ہے۔ ان میں بھی "نہی عن المنکر” پر کاربند کی بھی تقسیم ہوتی ہے، کچھ تو بڑھ کر برائی کو ہاتھ سے روکنا چاہتے ہیں جن کے سامنے مشکلات و مصائب پہاڑ کی طرح کھڑے ہوتے ہیں، پھر ایمان کے درمیانے درجے کے لوگ جو زبان سے برائی کو برائی کہتے ہیں اور پھر اس سے نچلہ درجہ جو کسی مصلحت کی وجہ سے کم ازکم برائی کو دل میں برائی سمجھتے ہیں۔
یہ سب سے کمزور پہلو ہے۔ پھر اس سے بھی نچلا ایک اور درجہ بلکہ طبقہ ہے جو مصلحت کی چھتری اوڑھے چاروں طرف گھومتا ہے اور حق اور باطل کی تمیز صحیح اور غلط کی پہچان کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تعلقات خراب ہونے سے ڈرتا ہے۔ حق بات کہنے سے اسے اپنے مفادات و تعلقات خطرے میں نظر آتے ہیں۔ وہ طاقتور کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا وہ سمجھتا ہے کہ دشمنی پالنے کا کیا فائدہ جب کمزور فریق تو ویسے بھی کُچلا جائے گا، اس کی اوقات ہی کیا ہے؟ جانے دو دیکھا جائے گا۔
یہ آخری طبقہ معاشرے کا وہ ناسور ہے جو معاشرے کے لئیے دیمک سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ یہ طبقہ معاشرے میں موجود خیر کو چاٹتا رہتا ہے۔ ظلم پروان چڑھتا ہے، مظلوم پِستا ہے اور ظالم کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔
یہی لوگ آپ کو ہر طرف "امر بالمعروف” کے پیکر دکھائی دیں گے کہ گویا بس اس معاشرے میں یہ آخری خیر بچا ہے باقی سب اندھیرنگری ہے لیکن وقت جب "نہی عن المنکر” کا آئے تو یہی لوگ جابر اور طاقتور کے حصار میں دُبکے دکھائی دیں گے
جس کثیر تعداد میں اہلیانِ کوہسار نے جھوٹی ایف آئی آر کے حوالے سے آواز اُٹھائی یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوہسار کا معاشرہ ابھی زندہ ہے، ابھی یہاں غیرت زندہ ہے، اور برائی کو ببانگِ دہل برا کہنے والے اور ظالم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اُسے ظالم کہنے والے ابھی زندہ ہیں۔
شکریہ اہلیانِ کوہسار ۔۔۔ ہم آپکو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ ان شاء اللہ
#حمادسکند
Thank you people of Kohsar,شکریہ اہلیانِ کوہسار