غزہ میں جاری نسل کشی نے عالمی اداروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کو بے نقاب کر دیا
اقوام متحدہ اپنی موجودہ ساخت اور حرکیات کے ساتھ فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کا کوئی حل فراہم نہیں کر سکتا۔ غزہ میں جاری نسل کشی نے قانون اور اصول کی نام نہاد بنیادوں پر قائم عالمی نظام اور اس کے ذمہ دار عالمی اداروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور ان کی حکومت اسرائیل کے جنگی جرائم کی پشت پناہی کرکے اور اس کے جھوٹ کی تائید کرکے جارحیت میں برابر کی شریک ہے۔ ایسے وقت میں جب امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، دنیا بین الاقوامی سطح پر، خاص طور پر مغرب میں، نچلی سطح سے بھرپورعوامی حمایت سے ابھرنےوالی ایک بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہے، کیونکہ لاکھوں لوگ روزانہ فلسطینیوں کے لیے انصاف کے لیے ریلیاں نکال رہے ہیں۔ مسلم دنیا، گلوبل ساؤتھ، روس اور چین اپنی نرم طاقت کے ساتھ اجتماعی طور پر امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزکورہ بیانیہ معروف پاکستانی اور بین الاقوامی دانشوروں اور ماہرین کے کچھ اہم مشاہدات تھے جنہوں نے ایک بین الاقوامی ہائبرڈ سیمینار، ‘غزہ کے بحران کے 30 دن: عالمی ردعمل اور عالمی نظام کی تشکیل نو کے دوران اس مسئلے کی مختلف جہتوں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سیمینار کا انعقاد مشترکہ طور پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، اور سینٹر فار کریٹیکل پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہورنےکیا تھا۔ اس پروگرام کی صدارت سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کی جبکہ شریک صدرچیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن تھے۔ اہم مقررین میں ملائیشیا کے معروف ماہر سیاسیات اور انٹرنیشنل موومنٹ فار اے جسٹ ورلڈ کے صدر ڈاکٹر چندرا مظفر، جنوبی افریقہ کے ایفرو مڈل ایسٹ سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نعیم جینا، ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین، ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء، اسلام آباد کے ڈائریکٹر ریسرچ اویس انور، اور سینٹر فار کریٹیکل پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فاطمہ سجاد شامل تھے۔ مقررین نے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی تشدد آمیز نسل پرستی کی امتیازی حمایت پر افسوس کا اظہار کیا جو عالمی قوانین اور ان پر مبنی نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ امریکہ اسرائیل کے سرپرست اور محافظ کے طور پر کام کر رہا ہے اور اسے جو چاہے جرائم کرنے کی اجازت دے رہا ہے، امریکی تسلط اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف نچلی سطح سے عالمی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف مسلم دنیا، اور تیسری دنیا کی اقوام، بلکہ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر سے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف گلوبل ساؤتھ کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کی وسیع پیمانے پر عالمی مہم کی تعریف کی۔ مشاہد حسین نے کہا کہ حق خودارادیت کا اصول ابدی ہے اور اسے فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام سے نہیں چھینا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی اجاگر کیا کہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی نظام تین جہتوں میں تبدیلی دیکھ رہا ہے: مغرب کا زوال، چین کے عروج کے ساتھ ایشیا کا دوبارہ سر اٹھانا، اور ایک نئی سرد جنگ کا ظہور، کیونکہ مغرب عالمی طاقت کا اختیار ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان تبدیلیوں کے درمیان انہوں نے زور دیا کہ پاکستان مسلم دنیا کے رہنما کے طور پر اسرائیلی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایکشن پلان کو اپنانے کے لیے اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تین نکاتی ایجنڈے کا خاکہ پیش کیا: سب سے پہلے امریکی اسرائیل کے جھوٹ اور جھوٹے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک میڈیا کنسورشیم کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستانی چینلز اور ہم خیال ممالک کے نیٹ ورکس کے درمیان میڈیا کوآرڈینیشن کی صورت میں ہو سکتا ہے تاکہ سچائی اور حقائق پر مبنی صورتحال کو اجاگر کیا جا سکے۔ دوم، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بحری آپریشن کے ذریعے انسانی امداد اور انخلاء کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اس کے بعد پاکستان، ترکی ، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کی بحری افواج کا ایک فلوٹیلا غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف اقوام متحدہ کی تائید سےامدادی سامان پہنچانے اور شہریوں کے انخلاء کا بندوبست کر سکتا ہے۔ تیسرا، ہم خیال ممالک کے رہنماؤں کو اقوام متحدہ، یورپی یونین، واشنگٹن، اور طاقت کے دیگر دارالحکومتوں کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے قائم کردہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ چندر امظفر نے کہا کہ جمہوری طور پر منتخب حماس کے خلاف اسرائیلی جارحیت جنگ نہیں بلکہ قتل عام اور نسل کشی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ سجاد نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت فلسطینیوں کے ہولوکاسٹ سے کم نہیں۔ اویس انور نے کہا کہ جیسا کہ اسرائیل نے بار بار بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے اپنے مظالم کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی موجودہ ساخت اور حرکیات کے ساتھ کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ نعیم جینا نے او آئی سی اور عرب لیگ کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ غزہ کی آبادی کی مدد کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے میں ناکام رہے جنہیں اسرائیل نے گزشتہ 17 سالوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے فلسطینی کاز کو اجاگر کرنے اور اسرائیلی نسل پرستانہ قبضے اور مظالم کی مذمت میں جنوبی افریقہ کی حکومت اور قیادت کے کردار کی تعریف کی۔ خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ غزہ جنگ نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کا پردہ چاک کر دیا ہے جو حماس کے سامنے بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر اس بات کی دو واضح مثالیں ہیں کہ کس طرح جارحیت پسند اپنے مفاد کے لیے بین الاقوامی قانون کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جاری بحران طویل المدّتی عالمی حرکیات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا مشرق وسطیٰ کبھی بھی پرامن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے فوری طور پر جنگ بندی، خوراک کی فراہمی اور انسانی امداد کے ساتھ ساتھ دیرپا امن کے لیے ٹھوس مذاکرات کی ضرورت ہے۔—