کاشف حسین غائر،پہاہ فیقے کی بھینس اور ایک سعادت مندنوجوان

شعیب بن عزیز
شعر سن کر داد دینا یا خاموش رہنا آپ کی اپنی مرضی ہے۔ ہر شعر دادو وتحسین کا سزاوار ہوتا بھی کہاں ہے۔ ۔ لیکن شعر سنانے کے بعد شاعر کو جب یہ سننا پڑے کہ” صاحب اس پر مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا ۔ یا پھر یہ کہ “ اس مضمون کو استاد تپش مرحوم نے کیا خوب باندھا ہے “، تو شاعر پہ کیا گزرتی ہے۔ یہ جاننے کے لئے آپ کا شاعر ہونا ضروری ہے۔
کاشف حسین غائر اردو غزل کے باکمال شاعر ہیں۔ میر کے عہد میں ہوتے تو خدائے سخن سے داد پاتے۔۔ غالب کا زمانہ ملتا تو نوشہ میاں اس تلقین کے ساتھ تھپکی دیتے کہ میاں کہتے رہو ۔کیا خوب کہتے ہو۔ گزشتہ روز برادرم اسلم ملک نے فیس بک پہ ان کا یہ شعر پوسٹ کیا۔
مسافروں کو یہ رستے بھی یاد رکھتے ہیں
ابھی فلاں نہیں گزرا ، ابھی فلاں گزرا
اہل نقد و نظر کی زباں میں بات کروں تو انسانی وجود کی تنہائی اور اس تنہائی کے غیر مرئی نواح میں وابستگی کی بے سود مگر تخلیقی سطح پر ثمر آور تلاش کی ایسی مثالیں اردو ادب میں کم دکھائی دیتی ہیں۔ دل کی آواز سنوں تو شعر کیا ہے غارت گروں کا محلہ ہے ۔۔قاتلوں کی بستی ہے گویا۔ دیدہ و دل کی تباہی کا کون سا سامان ایسا ہے جو ان دو مصرعوں میں بہم نہیں ملتا۔
کسی زمانے میں بڑے بوڑھوں پہ ہنسا کرتے تھے کہ اخبار ہاتھ میں آجاتا تو اشتہاروں کے بعد پرنٹ لائن تک چبا ڈالتے ہیں۔ ۔ اب اپنی فراغت کا یہ عالم ہے کہ اچھے لگنے والے متن سے بار بار لطف اٹھاتے ہیں ، یہی نہیں کمنٹس کے خانوں میں جھانکنا بھی نہیں بھولتے۔ برادرم اسلم ملک کے اس یادگار انتخاب پر کسی دوست نے مشترکہ لفظیات پر مشتمل مجید امجد کا شعر دہرا رکھا تھا۔ مضمون میں واحد وجہ اشتراک یہ تھی کہ دونوں شعروں میں راستوں سے گذرنے والوں کو ذکر تھا ۔ طبعیت مکدر ہوئی ، اسی لئے آج آپ سے گفتگو کا آغاز ہی اس استدعا سے کرنا پڑا کہ شاعر کو داد دیں یا نہ دیں اپنے تئیں اسے اس کی “اوقات “یاد دلانے سے تو باز رہیں۔ پنجاب کے دیہات میں کسی گھرانے میں بھینس کی خریداری کو اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ میں فیس بک پہ جب ایسے تبصرے دیکھتا ہوں تو مجھے وہ دیہاتی یاد آتا ہے جو خریدار کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ کہنا نہیں بھولتا تھا کہ “ چنگی اے پر تسی فیر پہاہ فیقے دی مج نئیں ویکھی”۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی اپنی وال پہ خود اپنا شعر لگایا ہو۔ کوئی چاہنے والا اپنی پسند کے انتخاب کے طور پہ شائع کردے تو ،آپ سے کیا چھپانا ، اچھا لگتا ہے۔ بعض اوقات ایسی پوسٹیں اپنی وال پر شئیر بھی کر لیتا ہوں۔ گزشتہ دونوں ایسی ہی ایک پوسٹ کے کمنٹس میں کسی نوجوان نے ایک شعر نقل کیا۔ اس کا اپنا بھی ہو سکتا ہے۔ تین لفظوں اور ایک قومے کے علاوہ ،قسم لے لیں جو دونوں شعروں میں کوئی چیز مشترک نظر آتی ہو۔ مضمون کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ رنجیدہ دل کے ساتھ قدرے تلخی سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس موضوع پہ اس سے بہتر شعر پہلے سے موجود ہے۔ یا پھر مدعا یہ ہے کہ میں سرقے کا مرتکب ہوا ہوں۔ مزید استفسار کیا کہ کیا میں اپنے شعر سے دست کش ہو جاؤں۔ خوش گوار حیرت ہوئی جب نوجوان نے تینوں مفروضوں سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت بھی طلب کی۔ اس کالم کا اختتام اسی سعادت مند نوجوان کے نام۔