عذر شاعری بدتر از شاعری۔۔۔ از مشفق خواجہ

ایک زمانہ تھا کہ نقادوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا لیکن جب سے ہمارے ادیبوں نے سر اور أنکھوں سے کام لینا چھوڑ یا ہے ,تب سے نفادوں کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ نقاد کا ادب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ وہ تخلیق کار نہیں ادبی طفیلیہ ہیں جس کا وجود تخلیقی ادیبوں کی نگارشات کا مرہون منت ہے. وہ بزعم خود ادبی تخلیقات کو پرکھ کر اچھے برے فیصلے کرتا ہے۔جب کہ کسی ادبی تخلیق کو کوئی ایسا شخص پرکھنے کا حق اور صلاحیت نہیں رکھتا جو تخلیق کار نہ ہو۔

مطلب یہ کہ جسے عزل کہنے کا اور افسانہ لکھنے کا تجربہ نہ ہو اسے کیا معلوم غزل کیا ہوتی ہے اور افسانہ کیا ہوتا ہے۔ لہذا عزل کا نقاد وہی ہے جو غزل لکھتا ہے اور افسانے کو پرکھنے کی صلاحیت اسی میں ہوگی جو افسانہ لکھتا ہے۔
ہم نے جب اس معاملے پر ایک نقاد دوست سے رہنمائی طلب کی تو انہوں نے اس انتہا پسندانہ رائے سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا۔۔”اگر موجودہ دور کے غزل گو شاعروں اور افسانہ نگاروں میں تنقیدی بصیرت ہوتی اور وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنا جانتے تو آج کے ننانوے فیصد غزل گو اور افسانہ نگار ادب کو خیرباد کہہ کر کوئی آبرومندانہ پیشہ اختیار کرتے۔ ہر غزل گو اپنی غزل کو اور ہر افسانہ نگار اپنے افسانے کو اعلی درجے کی تخلیق سمجھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اعلی اور ادنی کا فرق ہی مٹ گیا۔”

8847a91a 6242 42ae a64c 4357fb8f06b3 jpg
موصوف نے یہ بھی کہا: "نقادوں کے خلاف جو عام فضا پیدا ہوئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ادیب یہ چاہتا ہے کہ نقاد اس کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قالبے ملاتے رہیں۔ نقاد کبھی کبھی مروت میں أکر تو جھوٹی تعریف کر سکتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہمیشہ جھوٹ کا کاروبار کرتے رہیں۔ جھوٹی غزلیں اوذ جھوٹے افسانے لکھنے والے چاہتے ہیں کہ نقاد بھی دروغ کے فروغ میں حصہ لیں۔”

ہم نے عرض کیا ” اگر نقاد حق پر ہیں اور تنقید نگاری ایک باعزت کام ہے تو مشہور نقاد شمیم حنفی نے یہ کیوں کہا ہے کہ مجھے اس بات سے خوف آتا ہے کہ قیامت کے دن مجھے نقادوں میں اٹھایا جائے.”
اس کے جواب میں موصوف نے فرمایا: ” شمیم حنفی کا معاملہ انفرادی ہے۔ وارث علوی نے ان کی کتاب "جدیدیت کی فلسفیانہ اساس” پر جو تبصرہ لکھا تھا وہ تبصرہ نہیں چارج شیٹ تھی۔ہوسکتا ہے کہ حشر کے دن شمیم حنفی کے نامہ اعمال کے ساتھ وارث علوی کا تپصرہ دستاویزی شہادت کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسی خوف کی وجہ سے شمیم حنفی کی خواہش ہے کہ قیامت کے دن انہیں نقادوں میں سے نہ اٹھایا جائے۔”

ہم نے شمیم حنفی کے حوالے سے اس بحث کو طول دینا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ شمیم حنفی صف اول کے تخلیق کار بھی ہیں اس بنا پر تنقید ان کے لیے ذریعہ عزت نہیں بلکہ وارث علوی کے تبصرے کے بعد ذریعہ رسوائی بنی ہے۔ لہذا ہم نے اپنے نقاد دوست سے ایک دوسرے معاملے پر رہنمائی چاہی اور یہ سوال کیا۔ ” یہ کہاں تک درست ہے کہ نقاد چونکہ تخلیق کار نہیں ہوتے اس لیے وہ کسی ادبی تخلیق کی اچھائی برائی کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔”

انھوں نے فرمایا: "آپ سے کس نے کہہ دیا کہ نقاد تخلیق کار نہیں ہوتے۔۔نیاز فتخپوری۔ مجنون گھورکپوری، احتشام حسین اور کلیم الدین احمد شاعر بھی تھے۔ ان کا کلام رسالوں میں چھپتا رہا ہے۔ کلیم الدین احمد کی شاعری کے دو مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔”
ہم نے عرض کیا: "ان نقادوں کی شاعری ہماری نظر سے گزر چکی ہے اس کے بعد ہی سے ہم ضعف بصارت کا شکار ہوئے ہیں۔ نیاز، مجنون اور احتشام حسین۔کی شاعری کسی لائق ہوتی تو نہ اپنے مجموعے ضرور چھپواتے۔ ان کو احساس تھا کہ وہ اچھے شاعر نہیں ہیں۔

البتہ کلیم الدین احمد کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔ انھیں یہ احساس تھا کہ وہ اچھے شاعر ہیں لہذا اپنے مجموعے چھپوادیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس بات کا انہیں احساس نہیں تھا دوسروں کو ہوگیا۔ کلیم الدین احمد نے دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے شاعری کے اعلی معیاروں کو سامنے رکھا لیکن جب خود شاعری کی تو ان سارے معیاروں کو نظرانداز کر دیا۔ انھوں نے اپنے آپ کو بڑا شاعر منوانے کے لیے اپنے دونوں مجموعوں پر اپنے دو شاگردوں سے الگ الگ تنقیدی کتابیں لکھوائیں مگر ان کی شاعری تنقیدی قصیدوں کے زور پر بھی نہ چل سکی۔”
نقاد دوست نے ہماری الٹی سیدھی باتیں نہایت صبر و تحمل سے سنیں اور ان کے جواب میں صرف اتنا کہا: "أپ کلیم احمد سے زیادتی کر رہے ہیں وہ اقبال کی صف کے شاعر ہیں۔”
ہم نے کہا: ” بشرطیکہ کہ اقبال کو شاعروں کے اخری صف میں کھڑا کیا جایے۔ ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کلیم الدین احمد اور اقبال کے کلام میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلا اقبال کی نظم ہمالہ کا ایک شعر ہے:

برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ مہر تاب عالم. پر

کلیم الدین احمد ایک نظم میں فرماتے ہیں

دور دور نظروں سے
کوہ سر اٹھاتے ہیں
أسمان کو چھوتے ہیں
ان کے برف کی دستار
رزق برق کیسی ہے

کلیم الدین احمد اور اقبال ک شاعری میں یہ مماثلت بھی ہے کہ کلیم الدین احمد نے اپنے مجموعے "بانگ درا” کے سائز میں چھپوائے ہیں۔”

ایک تبصرہ چھوڑ دو