یار ! بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
تحریر : راشد عباسی

جن احباب نے بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ "گولز اینڈ آبجیکٹوز” متعین کیے بغیر کاروباری اہداف کا حصول ناممکنات میں ہے۔ یہی معاملہ حیات انسانی کا بھی ہے۔ جب تک مقصد زندگی کا تعین نہیں ہوتا کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ لیکن کامیابی ہے کیا، اس کے بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں۔
میں نے جب بھی نوجوانوں سے کامیابی کے مفہوم کے بارے استفسار کیا تو ان کے جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں کامیابی کی کسوٹی درج ذیل کے حصول میں ہے۔۔
- عہدہ و مقام
- دولت
- شہرت
- کوٹھی، کار
- پر تعیش طرز زندگی
- پی آر
اگر یہی کامیابی ہے تو پھر معروف گلوکار اسد عباس شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچے وہ کامیاب ترین آدمی ہیں۔ مال و اسباب، فیصل آباد اور لاہور میں چار کوٹھیاں، مرسیڈیز سمیت کئی گاڑیاں، ایک ایک کنسرٹ کے پانچ لاکھ سے بارہ لاکھ روپے، ورلڈ ٹوورز۔۔۔۔۔۔ فائیو سٹار ہوٹل، فرسٹ کلاس ٹریول۔۔۔۔۔ ہے نا خواب نما کامیابی ؟؟؟؟؟؟
لیکن ٹھہریے۔۔۔۔۔ ذرا میں اسد عباس کی موجودہ صورت حال آپ پر عیاں کر دوں۔ وہ گردوں کے انفیکشن کی وجہ سے ہفتے میں چار بار ڈائیلسز کروانے پر مجبور ہیں۔ وہ آج کل کون سی والی کوٹھی میں رہتے ہیں۔ نہیں بھائی۔۔۔۔ چاروں کوٹھیاں بک چکی ہیں۔ چلیں گاڑیاں تو ہیں ناں ! نہیں۔۔۔۔۔ گاڑیاں بھی بک چکی ہیں۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے خوبرو گلوکار اسد عباس گردوں کے مرض کی شدت کی وجہ سے اب پہچانے نہیں جاتے۔ ان کی گوری رنگت سیاہ پڑ چکی ہے۔
اس تحریر کا مقصد آپ کو دعوت فکر دینا تھا۔
کامیابی مال و اسباب میں نہیں ہے۔ عرفان ذات اور نتیجتا عرفان الٰہی میں ہے۔
اسرارِ ازل جوئی بر خود نظری وا کن
یکتائی و بسیاری، پنہائی و پیدائی
(اقبال)