مرحوم گورنمنٹ کالج مری

تحریر : پروفیسر اشفاق کلیم عباسی

مرحوم گورنمنٹ کالج مری

یہ غالبا 2017ء کے اواخر کی بات ہے جب ہم اپنے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب سے ملنے خود ان کی اپنی دعوت پر وزیراعظم آفس پہنچے۔ وفد میں جناب پرنسپل کے علاوہ 2 پروفیسرز اور 15 طلبہ شامل تھے۔کمال عزت افزائی کے بعدہم نے ان کے سامنے کالج کو یونیورسٹی بنانے کا مدعا رکھا، جس پر انہوں نے حسب طبیعت زیادہ گرم جوشی تو نہ دکھائی البتہ ان کی ہدایت پر اگلے ہی ماہ پنجاب HEC کے ایک اعلی سطحی وفد نے گورنمنٹ کالج مری کا دورہ کیا اور نزدیک ہی ڈیری فارم کے قریب یا بروری میں فوری طور پر یونیورسٹی کیمپس کے قیام کا مژدہ سنایا۔ وفد کے سربراہ کے بقول وزیراعظم کی خواہش تھی کہ مارچ 2018ء تک کلاسز کا بھی اجرا ہو جائے کیونکہ ان کی مدت 31 مئی کو ختم ہونا تھی۔

اسی دوران کالج انتظامیہ نے کوشش کی کہ وزیراعظم کو کالج کے پہلے کانووکیشن میں بطور مہمان خصوصی بلایا جائے مگر ان کی مصروفیات آڑے آتی رہیں۔ اس پر راجہ اشفاق سرور مرحوم نے 30 اپریل 2018ء کو آنا قبول کیا۔ یوں کالج کا پہلا اور آخری کانووکیشن منعقد ہوا جس میں بطور صوبائی وزیر انہوں نے یونیورسٹی کے قیام کا وعدہ کیا اور 17مئی 2018 کو پنجاب اسمبلی سے یونیورسٹی آف مری کے قیام کا بل منظور کرا کے اپنا وعدہ ایفا کیا۔

اس سے قبل یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر عبدالحنان عباسی بھی یونیورسٹی کے قیام کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ اس آواز میں کوہسار مری کے سماجی و سیاسی راہنما نیز کچھ صحافی حضرات بھی اپنی آواز ملاتے رہے۔

یاد رہے کہ گورنمنٹ انٹر کالج مری انیس سو اٹھاون، انسٹھ میں راجہ غلام سرور مرحوم نے منظور کرایا۔ جو 1969/70 میں موجودہ عمارت میں منتقل ہوا۔ اسے 1974ء میں MPA بابو محمد حنیف مرحوم نے انٹر کالج سے ڈگری کالج اور محمد نذیر عباسی کی سفارش پر سابق ایم پی اے راجہ شفقت عباسی کے بھائی ڈاکٹر محمد نعیم خان، رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی، نے پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دلوایا۔

درج بالا حقائق شاہد ہیں کہ مختلف ادوار میں تمام منتخب سیاسی نمائندے اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔

2018 کے انتخابات میں منتخب ہونے والے ایم این اے پروفیسر صداقت عباسی کی یونیورسٹی کے قیام کے لیے انتھک کوشش کی نتیجے میں جولائی 2020ء میں کوہسار یونیورسٹی مری کا قیام عمل میں آیا۔ جسے قائم ہوئے آج تین برس پورے ہونے والے ہیں۔ اس عمل میں انہیں اپنے ساتھی ایم پی اے میجر لطاسب ستی کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔ یہ جامعہ مری اور اس کے مضافات کے ان غریب طلبا کے لیے ایک نعمت ہےجو مالی وسائل نہ ہونے کے باعث مزید تعلیم سے محروم رہ جاتےتھے۔

 آج کوہسار یونیورسٹی کے 18 شعبہ جات میں 2000 سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جو اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔

لیکن عین اس تاریخی موقع پر عوامی نمائندوں سے ایک بھول ہوئی، جس کا نقصان کوہسار مری کے عوام آج اور آنے والے وقتوں میں اٹھاتے رہیں گے۔۔۔۔۔

وہ بھول یہ تھی کہ یونیورسٹی کا قیام گورنمنٹ کالج مری اور گرلز ڈگری کالج مری کی عمارتوں میں عمل میں لایا گیا جس کے متبادل ان اداروں کو کوئی عمارت ملی اور نہ ہی کوئی رقبہ جس پر عمارت تعمیر کیے جانے کا کوئی امکان بھی ہو۔ یعنی دونوں کالجوں کی قربانی دے کر یونیورسٹی بنائی گئی۔

یہ زیادتی صرف ان 2 کالجوں کے ساتھ ہی نہیں ہوئی بلکہ کوہسار یونیورسٹی مری کا نوخیز پودا جو ابھی لگا ہی تھا کہ پنجاب کی گھاگ بیورو کریسی نے تب کے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں پنجاب ہاؤس میں کوہسار یونیورسٹی کے قیام اور ان کے ہاتھوں افتتاح کے بعد بھی پنجاب ہاؤس کے تمام بلاکس اور سہولیات یونیورسٹی کو نہ دیں بلکہ PEEF کے زیر قبضہ محض ایک بلاک دے کر وقت کے وزیراعظم کی آنکھوں میں دھول جھونک دی۔

مزید برآں پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ ایکٹ میں مری بروری کی متروکہ 86 کنال زمین کا ایک انچ کا قبضہ بھی یونیورسٹی کو نہیں مل سکا۔ جس کے باعث نہ صرف مذکورہ دونوں کالج اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں بلکہ کوہسار یونیورسٹی کو بھی مستقبل میں اپنے کیمپسز کی تعمیر کے لیے مسائل سے دوچار کردیا گیا ہے۔

اس تمام عمل میں نام نہاد سٹیک ہولڈرز یہ غلط تاثر پھیلاتے رہے کہ عوام یا طلبہ کا کوئی سیکشن یونیورسٹی کے خلاف ہے۔ حال آنکہ اس طرح کی دقیانوسی سوچ رکھنے کا الزام دینا بھی اہل کوہسار کی توہین کے مترادف ہے۔

اگر اہل کوہسار کا موقف معلوم کیا جائے تو وہ روز اول سے دونوں کالجوں کی بقا اور یونیورسٹی کے مکمل کیمپس (پورے پنجاب ہاؤس اور مری بروری کی متروکہ چھیاسی کنال زمین پر) کے قیام کے حامی تھے اور آج بھی ہیں۔

فیصلہ سازوں کو مندرجہ ذیل حقائق کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔۔۔

گورنمنٹ کالج مری میں پروفیسرز کی 48 جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف کی 33 اسامیاں ہیں۔ اسی طرح گرلز ڈگری کالج مری کی بھی 50 سے زائد ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسامیاں ہیں

یعنی گریڈ 1 سے گریڈ 20 تک کل 150 کے لگ بھگ اسامیاں اہل مری کی امانت ہیں، جو ستر برس کے سفر میں کالج کے حصے میں آئیں۔

ان دونوں کالجز میں ہرسال 2 ہزار کے قریب طلبا انٹر اور ڈگری کلاسز میں تعلیم پاتے تھے جن کا مستقبل اب مکمل تاریک نظر آتا ہے۔

درج ذیل حقائق بھی ہماری توجہ کے طالب ہیں۔۔

  • پنجاب بھر کے برعکس گورنمنٹ کالج مری داخلہ کی شرح، طلبہ کی تعداد اور نتائج کے اعتبار سے صوبہ بھر میں ممتاز رہا ہے۔
  • 2020ء میں کالج میں طلبا کی تعداد 800 سے زائد تھی جس میں ڈگری سیشن میں300 سے زائد طالبات بھی تھیں۔
  • کالج نے اپنے آخری 10 برس میں صوبہ بھر میں اعلی نتائج دیے۔ جہاں سے ہر برس 100 سے زائد سائنس اور ادب کے گریجویٹ فارغ التحصیل ہوکر عوامی خدمت اور تعلیمی ترقی کے عمل میں شامل ہوتے رہے۔

اس کی دو طالبات نے علی الترتیب 2015 اور 2018 میں جیوگرافی اور میتھس میں پنجاب یونیورسٹی میں میڈلز جیتے۔

  • کالج میں ایم اے انگلش، ایم اے پولیٹیکل سائنس اور ایم اے اسلامیات کی کلاسیں بھی جاری رہیں۔
  • اس کے علاوہ کالج کے اتھلیٹس مسلسل 2 برس پنجاب کے تمام بورڈز کو ہرا کر میراتھن اور کراس کنٹری ریس کے چیمپئن بنے۔

دونوں کالجوں کے خاتمے سے طلبا وطالبات کا مستقبل مخدوش ہونے اور اہم ترین تدریسی خدمات کے منقطع ہونے کے حوالے سے سب سے اہم، حیران کن اور معنی خیز طرز عمل کوہسار کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، اہل صحافت اور عوامی نمائندگان کارہا۔

بالخصوص تب کے منتخب نمائندوں نے عوام سے مسلسل جھوٹ بولا۔

اپوزیشن جماعتوں کی اس مسئلہ پر خاموشی بھی مجرمانہ اور ناقابل معافی رہی ہے۔

صحافیوں کی اکا دکا آوازیں ان کی دیگر اہم مصروفیات میں دب گئیں

البتہ سب سے اہم کردار مری بار ایسوسی ایشن کا رہا۔ جس کے تمام اراکین مل کر کالج گئے۔ طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ پنڈی بنچ میں پٹیشن دائر کی، جو آج بھی منتظر سماعت ہے۔

گزشتہ روز نگران وزیراعلی پنجاب جناب محسن نقوی سے ملاقات ہوئی۔ جس میں مری کے دونوں کالجوں کی بحالی اور ان کے الگ قیام کی درخواست کی گئی۔  ہم نے ہر پلیٹ فارم سے ہر موقع پر آواز بلند کی ہے لیکن اس کی کامیابی کے لیے اہل کوہسار کی متحدہ جہد مسلسل، اخلاص اور دعاؤں کی قبولیت ہی مددگار ہوسکتی ہے۔

جس سمت بھی چاہے مثل سیل رواں چل
وادی یہ تمہاری ہے یہ صحرا بھی تمہارا

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارہ

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

(اقبال)

Picsart 23 06 20 11 45 31 555

FB IMG 1687243203464

ایک تبصرہ چھوڑ دو