مایوسی نہیں منصوبہ بندی

تحریر : راشد عباسی

مہنگائی بڑھنے، سیاسی حالات کشیدہ ہونے اور اداروں کے بے توقیر ہونے کے نتیجے میں مایوسی پھیلنا قدرتی امر ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم کچھ امور پر تفکر و تدبر کرتے ہوئے اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

پہلی بات یہ ہے کہ قوم میں مایوسی پھیلنے سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہو گا۔ کیوں کہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ کچھ میر جعفروں اور میر صادقوں کی مدد سے اس ملک کے قدرتی وسائل کو ملک کی خوشحالی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔  ملک کو کارپوریٹو کریسی کے چنگل سے نکلنے نہ دیا جائے۔ برآمدات اور درآمدات کے توازن کو قائم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے۔ قوم کو ذہنی غلامی سے نجات کی ہر کوشش کو بہ زور طاقت یا بہ ذریعہ پروپیگنڈا کچلا جائے۔ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے بجائے انھیں بہ دستور رٹو طوطا بنانے کے عمل کو تا دیر جاری رکھا جائے۔

اس صورت حال میں ہمیں کئی محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ ہمارے لیے کرنے کا پہلا کام تعلق بالقرآن ہے۔ قرآن ثواب کی نہیں عمل کی کتاب ہے۔ اس میں کامیابی اور ناکامی، ترقی و پسماندگی اور عروج و زوال کے قوانین موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود اس غلط فہمی سے نکلتے ہوئے اپنی نئی نسلوں کو باور کرائیں کہ قرآن صرف خیر و برکت اور ثواب کی نیت سے یا رمضان میں تلاوت کرنے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے منشور حیات ہے۔ اگر ہمیں کامیاب ہونا ہے تو اس کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی اصولوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ قرآن و سنت کی تفہیم حاصل کرنے سے فرقہ پرستی کا قلع قمع سہل ہو جائے گا جو آج ہمارے قومی اتحاد و اتفاق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ صرف عبادات کو دین سمجھنے کی غلط فہمی بھی رفع ہو جائے گی۔ اور آسمان سے آفتوں کے بجائے برکتیں نازل ہوں گی۔

آج کا نوجوان باصلاحیت ہے۔ پر عزم ہے۔ محب وطن ہے۔ دینی جذبے سے سرشار ہے لیکن اس کے سامنے کامیابی کا صرف ایک معیار رکھا گیا ہے کہ پڑھ لکھ کر اچھی ملازمت حاصل کرنا اور پرآسائش زندگی گزارنا کامیابی کی معراج ہے۔ اس لیے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایک اچھے مسلمان کا فرض صرف عبادات کا اہتمام کرنا ہے۔ اسے یہ شعور ہی نہیں دیا گیا کہ عبادات کے ساتھ ساتھ مسلمان کے لیے اپنے معاملات کو احکام خداوندی کے مطابق بنانا بھی ناگزیر ہے۔ کرنے کا اصل کام اقامت دین کی جدوجہد ہے اور دین کو پورے کا پورا اپنانا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ[البقرہ -208]

تعلیم کا مقصد ملازمت کا حصول نہیں ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ پہلے وہ خود اس غلط فہمی سے نکلیں اور پھر اپنی اولاد کی بھی ذہن سازی کریں کہ تعلیم کے مقاصد میں مقصد زندگی کا ادراک،  تربیت نفس، علم کا حصول برائے عمل، فطرت کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیتوں کا مثبت استعمال اور انسانیت کی فلاح کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ حقیقی کامیابی مقصد حیات کے حصول کے لیے کامیاب سعی میں ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہمارا خوراک کے معاملے میں سارا انحصار درآمدات پر ہے۔ گندم تک کی ضروریات کے لیے ہم دوسرے ممالک کے محتاج ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک میں قابل کاشت زمینیں بنجر پڑی ہیں اور شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان کے پروان چڑھنے اور ہاؤسنگ سکیموں کے فروغ سے زرخیز ترین زمینیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات کے نوجوانوں کو ان مسائل کے حل کے لیے تحقیق پر لگایا جائے۔ جامعات کو پابند بنایا جائے کہ وہ کاپی پیسٹ تھیسز کی بنیاد پر ڈگریاں بانٹنے کے بجائے ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ملکی ترقی کے لیے استعمال میں لائیں۔

دیہات میں زراعت، باغبانی، پولٹری، لائیو سٹاک، ڈیری فارمنگ ، مگس بانی اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ حکومت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے تو ہم کثیر زرمبادلہ بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ انرجی کا فقدان ہے۔ اس سلسلے میں بھی جامعات نوجوانوں کی صلاحیتوں کے مثبت استعمال اور ان کی حوصلہ افزائی سے انقلابی تحقیقی کام کر سکتی ہے۔

دیہی خواتین کو مقامی روزگار کے مواقع مہیا کر کے حکومت نقل مکانی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہے۔ یوں بڑے شہروں کے مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

حکومت کے ساتھ ساتھ باشعور لوگ بھی اپنی غیر سیاسی تنظیمیں بنا کر اپنے اپنے علاقوں میں وقیع کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں "زیتون پروجیکٹ” ایک عشرے سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں عام لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں جہاں جنگلی زیتون (کہو) کے درخت موجود ہیں اگر ان پر اچھی نسل کے زیتون کی قلم کاری کر دی جائے تو تین سال کے بعد یہ درخت پھل دینا شروع کر دیں گے۔ اور ان کی پیداوار بہ تدریج بڑھتی جائے گی۔ اگر منظم جدوجہد کی جائے تو کئی ملین ڈالرز کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔

کھانے کے تیل کی درآمد پر پٹرول کے بعد ہمارا سب سے زیادہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر سرسوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ہم اپنی ضرویات کا بڑا حصہ سرسوں کے تیل سے پورا کر سکتے ہیں۔ سرسوں کا تیل حفظان صحت کے حوالے سے بھی برآمد شدہ غیر معیاری تیل سے بدرجہا بہتر ہے۔

خواتین کی فنی تربیت کے لیے منظم و مؤثر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ ووکیشنل تربیت کے مراکز کا دائرہ ہر علاقے تک بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شجر کاری ، لائیو سٹاک ، ڈیری فارمنگ اور مگس بانی کی تربیت عام کر کے اور آمدن کو کلی طور پر خواتین کے ہاتھ میں دینے سے ہم قومی سطح پر معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

فری لانسنگ کے شعبے پر حکومتی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلکہ ذاتی کوششوں سے زر مبادلہ کمانے والے نوجوانوں کو بھی رقم وصول کرنے میں گونا گوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں فری لانسنگ کے حوالے سے ورکشاپوں کا اہتمام کرے۔ نوجوانوں کے لیے مختصر دورانیے کے مفت کورسز کا اہتمام کرے۔ رقوم کی وصولی میں حائل رکاوٹیں دور کرے۔ اور یونیورسٹیوں کو پابند بنائے کہ طلباء کے لیے ڈگری کے حصول کو ایک نان کریڈٹ فری لانسنگ کورس کے ساتھ مشروط کرے۔

آج کے عالمی گاؤں میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب کہ ہم آج بھی سائنس کے مضامین کے امتحانات بھی رٹے کے ذریعے پاس کر کے ڈگریاں بانٹنے میں مصروف ہیں۔ آئیے صورت حال کو بدلنے کے لیے متحد ہو کر عملی جدوجہد کی راہ اپنائیں۔

images 15

images 17

images 16

ایک تبصرہ چھوڑ دو