مری کی ایک اور علمی و ادبی شخصیت ”سلیم شوالوی“ بھی جہان ابد سدھار گئے
تحریر : شکیل اعوان

کالم شالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکیل اعوان
سلیم شوالوی صحافی، شاعر، گیت نگار اور ایک خوبصورت شخصیت
1994 کا دور تھا جب مری سے میری شناسائی ہوئی۔ ایک دن عرفان عباسی مرحوم کے ہوٹل رٹز پر ایک وجیہ، گورے چٹے اور زندگی سے بھرپور شخص سے ملاقات ہوئی۔ بات سیاست سے ہوتی ہوئی جب ادب تک پہنچی تو سلیم شوالوی کا کلام سن کر لطف آیا۔ یوں ہماری ملاقاتیں روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگیں۔ کبھی راجہ صابر آف داناہ کے بنک میں اور کبھی پیپلز پارٹی کے دفتر میں، جہاں مری کے بڑے دماغ جمع ہوتے۔
محرم علی عباسی مرحوم، نذیر عباسی آف مسوٹ، راجہ شوکت آف لورہ نمب، سردار نثار آف لورہ۔۔۔۔ کیسے کیسے صاحب کمال لوگوں کا گلدستہ بن گیا۔ ہم تو مستقل دفتر کے مکین ہوگئے۔
سلیم شوالوی کثیرالجہت شخصیت تھے۔ اردو غزل کے ساتھ ساتھ پہاڑی گیت نگاری میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے تخلیق کردہ کچھ گیت میں نے ریکارڈ بھی کرائے جو بہت مقبول ہوئے۔ جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بنے بزارے نیئے کڑیے“
یا
”میکی چنگی لگنی مری شہرے نی نکی“
یا
”کنڑ چنسی پغولہ کڑٹیا کنی جلے “
جب سلیم شوالوی خود گاتے تو سماں بندھ جاتا۔ میں اکثر ان کی بک شاپ پر جاتا اور پہروں گفتگو رہتی، جو عموما مری میں ادب کی ترویج کے حوالے سے ہوتی۔ موسم بہار میں مری آرٹس کونسل یا اقبال لائبریری میں مشاعروں کا اہتمام ہوتا تو سلیم شوالوی پیش پیش ہوتے۔ آج کی طرح تب بھی مری میں ادبی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ چند دوست تھے جو شام کو مل بیٹھتے اور غم غلط کر لیتے۔ وہ مجھ سے اکثر کہتے۔۔۔۔۔۔
”او جاکتا! اتھے کیوں وقت ضائع کر رہیا ایں۔ کسے بڑے شہر آں ہجرت کر جل”
آخر ان کی یہ نصیحت مانتے ہی بنی۔
سلیم شوالوی چونکہ صحافت کے حوالے سے زیادہ سرگرم تھے اور ملک کے بڑے اخبار سے وابستہ تھے اس لیے شاعری کو زیادہ وقت نہ دے سکے۔ مگر جو لکھا، کمال لکھا۔ ان کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند تھی وہ اکثر مجھ سے ترنم میں سنتے اور داد دیتے۔ یہ غزل ان دنوں میں اکثر محافل میں بھی گایا کرتا۔۔۔۔۔۔
بدلا ہوا حالات کا دھارا نہیں ہوتا
ہارا ہوا انساں کبھی ہارا نہیں ہوتا
خود اپنے گناہوں کی سزا ملتی ہے ورنہ
انساں کبھی تقدیر کا مارا نہیں ہوتا
سوھنی کا گھڑا آج بھی دیتا ہے گواہی
دریاِئے محبت کا کنارا نہیں ہوتا
میرے لیے اس روز نکلتا نہیں سورج
جِس روز نقاب اس نے اتارا نہیں ہوتا
سلیم شوالوی بہت احساس طبعیت کے مالک تھے۔ مری جیسے غیر علمی و ادبی شہر میں رہتے ہوئے بھی علم و ادب کی شمع روشن کیے رکھی۔ ہماری اکثر محافل میں وہ موجود ہوتے اور جالب کا یہ شعر پڑھتے رہتے
اس شہرِ خرابی میں غم ِعشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
سلیم شوالوی صاحب سے آخری ملاقات جو بہت عرصے بعد ہوئی تھی، میرے اردو شعری مجموعے "آواز کا کاسہ” کی اشاعت کے دوران ہوئی۔ یہ مجموعہ جناب ارشد ملک کے "رمیل ہاؤس آف پبلیکیشنز” نے چھاپا تھا۔ ہم ان کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ سلیم شوالوی صاحب کا ذکرِ خیر چل نکلا۔ ارشد ملک نے فورا بتایا کہ شوالوی صاحب تو ان کے ہمسائے ہیں۔ بس پھر میں اور محترم راشد عباسی نے سارے کام چھوڑے اور جناب ارشد ملک کی معیت میں ان کے دولت خانے پر پہنچ گئے۔ پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر پہچان ہی نہ سکے کہ ان کی عمر عزیز اسی سے اوپر ہو چکی تھی۔ میں نے تعارف کروایا تو گلے لگ گئے اور خلاؤں میں گھورنے لگے۔ شاید ماضی کے جھروکوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ان سے خاصی دیر مکالمہ رہا۔ مختلف موضوعات زیر بحث آئے۔ میری کتاب کے بارے میں سن کر انھیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ میرے احوال کے بارے میں تفصیل سے پوچھتے رہے۔ اور بہت دعاؤں سے نوازا۔ ہمارے عہد رفاقت کی یادیں ان کے ذہن میں پوری طرح محفوظ تھیں اور اپنے پرانے ساتھیوں کو بہت محبت سے یاد کرتے رہے۔ مری سے چھپنے والے دستک کے کافی شمارے ان کے سامنے رکھے تھے۔ کچھ کتب بھی سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھیں۔ ایک بات میرے لیے باعث حیرت تھی کہ ان کے لہجے اور رویے سے اب بھی رجائیت ٹپکتی تھی اور شخصیت کا وقار کسی طرح بھی کم نہ ہوا تھا۔
ان کی رحلت کی خبر نے بے حد دکھی کر دیا۔ اللہ کریم ان کی آنے والی منزلیں آسان فرمائے اور جنت نشین فرمائے۔ آمین