انجمن فروغ پہاڑی زبان کےتحت علمی ستاروں کی کہکشاں سج گئی
تحریر : راشد عباسی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ برائے کوہسار نیوز)
20 جنوری بہ روز جمعہ بھارہ کہو میں انجمن فروغ پہاڑی زبان کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا۔ تاریخی اس لحاظ سے کہ اس سے پیشتر مشاعرے، سیمینار ، کتابوں کی تقاریب رونمائی اور ادبی بیٹھکوں کا انعقاد تو مختلف فورم مختلف اوقات میں کرتے رہے لیکن پہاڑی زبان کی بقا و فروغ اور اس کے قانونی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے لیے کوہسار کے ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے احباب کا یہ پہلا اجلاس تھا۔
اس اجلاس کے انعقاد کا سہرا جناب پروفیسر اشفاق کلیم عباسی کے سر تھا۔ انھوں ذاتی طور پر تمام شرکاء کو فون کر کے اجلاس میں شرکت کے لیے نہ صرف مدعو کیا بلکہ سب کو پابند بھی کیا۔ اجلاس میں تیس سے زیادہ احباب شامل ہوئے اور اس نہایت اہم مکالمے کا حصہ بنے۔
جناب ڈاکٹر شاہد نے اس امر پر زور دیا کہ مادری زبانوں کے حوالے سے احساس کمتری دور کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ اس فورم کے ممبران کی تعداد کم سے کم سو ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر امتیاز مرزا نے ماں بولی کی اہمیت اور پہاڑی زبان کی وسعت پر سیر حاصل گفتگو کی۔
معروف شاعر جناب اظہر حیات نے تمام حاضرین کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ ایک بڑے مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے اجلاس تواتر کے ساتھ ہوں۔ اگر زیادہ نہیں تو ماہانہ اجلاس کا سلسلہ ضرور رکھیں۔ جناب ہمایوں مرتضی نے مردم شماری فارم میں پہاڑی زبان کے اندراج کے لیے متحدہ جدوجہد پر زور دیا۔ جناب ضمیر عباسی نے کہا کہ بچے پہاڑی لکھنے پڑھنے میں بڑوں پر سبقت لے جاتے ہیں اس لیے تعلیمی اداروں میں ماں بولی کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد ضروری ہے۔ نیز گھر میں پہاڑی زبان بولیں اور گھر میں پہاڑی زبان کی کتابیں خرید کر رکھیں۔
جناب بابر شہزاد نے کہا کہ اس اجلاس کے منتظمین کا ہمیں ممنون ہونا چاہیے۔ ماں بولی کی بقا اور فروغ کے لیے جدوجہد ایک عظیم کام ہے۔ اس سلسلے میں کوہسار کے ہر فرد کو تعاون کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہماری نسلوں کو ان کی پہچان سے منسلک کرنے کی جدوجہد ہے۔ انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایک پروگرام وہ اپنے گھر پر رکھیں گے۔
اجلاس میں "پہاڑی زبان اساں نی پچھان” گروپ کے بانی حماد سکندر نے خصوصی شرکت کی اور پہاڑی زبان کی بقا اور فروغ کے لیے اپنی ساری ٹیم کے تعاون کا یقین دلایا۔ نیز پہاڑی لکھنے والوں سے گزارش کی کہ اردو کے قریب رہ کر، ایک ہی رسم الخط میں لکھیں۔ انھوں نے وکلاء سے گزارش کی کہ وہ پٹیشن کے حوالے سے جلد جائزہ لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کوہسار میں آگاہی مہم شروع کرنے کی تجویز بھی دی۔ نیز یہ بھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغامات پہاڑی میں لکھے جائیں۔ خصوصا فیس بک کی وال پر ضرور پہاڑی لکھی جائے۔ "پہاڑی زبان اساں نی پچھان” گروپ بھی اس خدمت کے لیے بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ "انجمن فروغ پہاڑی زبان” کی باقاعدہ باڈی تشکیل دے کر اسے رجسٹر کروایا جائے تاکہ سب اپنی اپنی ذمہ داری بہ طریق احسن نبھائیں۔ سوشل میڈیا کے فعال استعمال اور گوگل فارم کے ذریعے بہت وقیع کام ہو سکتا ہے۔
جناب شفاقت عباسی نے پرائمری تعلیم میں مادری زبانوں کے آئینی حق کے حوالے سے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے بھی انجمن کی تنظیمی باڈی کی تشکیل اور عہدیداروں کو ان کی ذمہ داریاں تفویض کرنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے صاحبان رسوخ اور اہل ثروت کو بھی اپنی ماں بولی کی خدمت میں حصہ ڈالنے کی درخواست کی۔ انھوں یہ بھی مشورہ دیا کہ شرکاء اجلاس پر مشتمل ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا جائے اور فنڈز کے لیے گروپ میں اکاؤنٹ کی تفصیل شئیر کی جائے۔ پہاڑی کتب کا ریسورس سینٹر بنانے اور مستقبل میں ہونے والے اجلاسوں کے انعقاد کے لیے شمس آباد ، مری روڈ میں اپنے دفتر کی پیشکش کی۔
جناب وجیہہ الاسلام نے کہا کہ ہزارہ، گلیات، سرکل بکوٹ وغیرہ میں بولی جانے والی زبان ہندکو نہیں پہاڑی ہے۔ بدقسمتی سے جغرافیائی تقسیم کے ساتھ زبان کو بھی تقسیم کیا گیا۔ اب تو اکثر گھروں میں بھی اردو انگریزی بولی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو ماں بولی سے محروم نہ کریں۔ انھوں نے اہل کوہسار سے گزارش کی کہ پہاڑی زبان کی چھپی ہوئی کتابیں ضرور خریدیں۔ یہ بھی اس مشن کی بہت بڑی مدد ہو گی۔
روزنامہ امت کے گروپ ایڈیٹر جناب سجاد عباسی نے جناب حماد سکندر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ماں بولی کے حوالے سے احساس کمتری کم کرنے میں "پہاڑی زبان اساں نی پچھان” اور "انجمن فروغ پہاڑی زبان” نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے عہد میں سوشل میڈیا انسلاک کا بہترین اور سریع الاثر ہتھیار ہے۔ پہاڑی زبان کے آئینی حقوق کے حصول کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ناگزیر ہے۔ نوجوانوں، خصوصا طلبا، کو اس جانب راغب کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں تقاریب کا اہتمام کیا جائے۔ اجلاس میں موجود کور کمیٹی ماہانہ فنڈ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ممبر پانچ مزید افراد کا انجمن کے ساتھ الحاق کرے۔ طلبا اور اساتذہ کا اس مشن کے ساتھ انسلاک ضروری ہے تاکہ اگلی نسل اسے سنبھال سکے۔ کوہسار کے صاحب رسوخ احباب میں ماں بولی کی اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کے لئے وفد کی صورت میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اگر کہیں فنڈز مختص و موجود ہیں تو اکیڈمی یا ریسورس سینٹر کے قیام کے لیے ان میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔
جناب کامران خان نے پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اہل کوہسار کو ایسے لوگوں کا ممنون ہونا چاہیے جو ہمیں ہماری پہچان کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ماہرین قانون میں جناب نذیر عباسی ایڈووکیٹ، جناب عبد الباسط عباسی ایڈووکیٹ، جناب شفاقت حسین عباسی ایڈووکیٹ اور جناب نزاکت حسین عباسی ایڈووکیٹ شامل تھے۔ انھوں نے حاضرین کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے اس امر کی نشان دہی کی کہ پہاڑی زبان کی ترقی کے لیے پہاڑی زبان بولنے والوں کا مثبت کردار ضروری ہے۔ اہل کوہسار خصوصا خواتین پہاڑی زبان کے حوالے سے احساس کمتری سے نکلیں گی اور گھروں میں نئی نسل کے ساتھ ماں بولی میں بات کرنے کی روش عام ہو گی تو اہل علم و دانش کی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی۔
جناب نذیر عباسی نے کہا کہ ساری دنیا میں لوگ اپنے لوگوں سے اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ صرف کوہسار کے لوگ احساس کمتری کی وجہ سے اپنے لوگوں سے بھی زبان غیر میں بات کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ بن کوٹل مری سے تعلق رکھنے والے جناب راجہ اکرام اعظم انگریزی میں کئی کتابوں کے مصنف تھے لیکن اپنے لوگوں کے ساتھ پہاڑی میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کبھی عار محسوس نہیں کی۔ انھوں نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ لکھی ہوئی پہاڑی پڑھنا بہت مشکل ہے۔ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ قارئین کو پہاڑی زبان کی تحریریں پڑھنے میں سہولت ہو جائے۔ نیز ہماری زبان کا نسل در نسل منتقل ہونے والا ورثہ (لوک کہانیاں، لوک گیت، شادی بیاہ کے گیت، ڈھولے، ماہیے، چن) معلوم نہیں کتنی صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہا تھا۔ اب چونکہ مائیں خود اپنی ماں بولی سے قطع تعلق کر چکی ہیں اس لیے سینہ بہ سینہ ورثے کی منتقلی کا عمل رک گیا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اس ورثے کی بھی تجمیع ہو اور اسے کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ انھوں نے قانونی جنگ لڑنے کی صورت میں اپنی خدمات وقف کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن یہ گزارش بھی کی کہ اگر پٹیشن کے ذریعے فی الحال پہاڑی زبان مردم شماری فارم میں شامل نہ بھی ہو تو یہ آپشن پہلے سے موجود ہے کہ”دیگر” کے زمرے میں اپنی مادری زبان "پہاڑی” درج کروا سکیں۔ اس سلسلے میں آگہی عام کرنے کی ضرورت ہے اور ہر باشعور شخص کو اس پیغام کو ہر گاؤں، ہر محلے تک پہنچانا چاہیے۔
جناب حافظ سعید احمد سعود نے کہا کہ جن لوگوں کا تعلق اپنی زبان اور اپنے وطن کے ساتھ نہیں ہوتا ان کا اللہ اور رسول کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ سورہ ابراہیم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے جتنے رسول بھیجے وہ اس قوم کی زبان میں بھیجے۔ ماں بولی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اپنی پہچان کے ساتھ وابستگی کا معاملہ ہے۔ یہ اپنی زمین اور غیرت کا مسئلہ بھی ہے۔
اجلاس میں جو نکات زیر بحث آئے اور مفصل گفت و شنید کے بعد جن کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا وہ درج ذیل تھے۔
پہاڑی زبان کے محکمہ شماریات اور مردم شماری فارم میں اندراج اور شمولیت کے لیے متحدہ قانونی جد و جہد کی جائے گی۔
پہاڑی زبان کی بقا اور فروغ کے لیے اکیڈمی کا قیام بنیادی کام ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پہاڑی زبان کی اکیڈمی موجود ہے۔ دوماہی شیرازہ پہاڑی اور دیگر بہت سی کتب کے علاوہ قرآن مجید کا پہاڑی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔پہاڑی میں ماسٹرز کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں پشتو اور ہندکو کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر ادارے ہیں لیکن پہاڑی سمیت دیگر مادری زبانوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم جناب سردار تنویر الیاس کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی ماں بولی کی خدمت کے لیے پہاڑی زبان کی اکیڈمی بنانے کا اعلان کریں۔ ان کے پاس جناب کریم اللہ قریشی، جناب ڈاکٹر نصراللہ ناصر اور جناب ڈاکٹر محمد صغیر جیسے ماں بولی کے خادم موجود ہیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی ، جناب سردار مہتاب ، جناب مرتضی عباسی، جناب سردار سلیم ، محترمہ مریم اورنگزیب اور دیگر اثر و رسوخ والی شخصیات کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سرکاری سطح پر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں سول سوسائٹی کوہسار کے مالی طور پر مستحکم لوگوں کے تعاون سے ایک اکیڈمی قائم کر کے اشاعتی کام کو تیز کرے۔
پہاڑی مطبوعات کا ایک "ریسورس سینٹر” بھی ضروری ہے۔ اس طرح تحقیق کرنے والوں کو ساری کتابیں، رسالے، مشورے ایک ہی جگہ دستیاب ہوں گے۔
کسی بھی زبان کے فروغ کے لیے اشاعتی کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اشاعتی کام کی رفتار تیز کرنے کے لیے اس بات پر اتفاق ہوا کہ اجلاس میں موجود ممبران ہزار روپیہ ماہانہ فنڈ جمع کرائیں گے۔ نیز کوہسار کے صاحب ثروت احباب سے گزارش کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تعاون کریں۔ نیز پہاڑی زبان کی پہلے سے چھپی ہوئی کتابیں خرید کر بھی اس مشن کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
فنڈز جمع کروانے کے لیے۔۔۔۔
ایزی پیسہ
03458566708
ابتسام راشد عباسی
اور جازکیش
03005110041
راشد حسین عباسی
انڈس کلچرل فورم کے زیر انتظام مادری زبانوں کا قومی میلہ امسال پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، اسلام آباد میں سترہ، اٹھارہ اور انیس فروری کو ہوگا۔ اس میں پاکستان بھر سے شاعر، ادیب، دانش ور، ماہرین لسانیات اور فنکار شامل ہوں گے۔ مادری زبانوں کے شعری مجموعوں کی رونمائی اور گرینڈ مشاعرہ اس تقریب کا مقبول ترین سیشن ہوتا ہے۔ اس برس پہاڑی زبان کی چھ کتب ان شاء اللہ میلے میں شامل ہوں گی۔
ہر ممبر اپنے احباب اور اہل خانہ کے ہمراہ میلے میں شرکت یقینی بنائے۔ اساتذہ اور طلبا کو بہ ہر صورت میلے میں شرکت کرنی چاہیے تاکہ وہ ارباب فکر و دانش کے خیالات سے مستفید ہونے کے علاوہ قیمتی کتابیں بھی پچاس فی صد رعایت پر حاصل کر سکیں۔ کوہسار سے تعلق رکھنے والے صحافی اس میلے کی بھرپور کوریج کریں تاکہ اہل کوہسار کو بھی علم ہو کہ دیگر ماں بولیوں کے فروغ کے لیے کیا کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔
راقم الحروف نے شرکاء اجلاس کو بتایا کہ میلے پر تقریبا چھ ملین روپے خرچ آئے گا۔ اس لیے کوہسار کے صاحب حیثیت احباب کو آئی سی ایف کے ساتھ مالی تعاون بھی کرنا چاہیے۔
اکیس (21) فروری دو ہزار تئیس کو مری آرٹس کونسل میں مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پہاڑی زبان کی کانفرنس اور مشاعرہ منعقد ہو گا۔ ان شاء اللہ اس سلسلے میں جلد تفصیلات شیئر کی جائیں گی۔۔