مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں !

حبیبہ طلعت کے قلم سے

فیض احمد فیض کی شاعری، شعر و ادب کا ایک روشن و رخشاں باب ہے۔۔ مگر صحافتی محاذ پر ان کی خدمات پاکستانی صحافت کا ایک ممتاز حوالہ بن چکی ہیں۔

13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں جنم لینے والے فیض نے 20 نومبر 1984ء کو لاہور میں وفات پائی۔ 73 سالہ عرصہ زندگی میں اپنی شخصیت کے بہت سے رنگ جمائے۔ بہ طور شاعر پاک و ہند سے لے کر روس، یورپ و امریکہ کے ساتھ عرب ممالک میں بھی مقبولیت پائی۔ رومان اور انقلاب کی باہمی آمیزش سے ایک نئے اسلوب بیان کے بانی ٹھہرے۔ اس دور میں جب اردو غزل اپنی کلاسیکی روایات سے دور ہو رہی تھی، فیض کے رنگ تغزل نے کلاسیکی روایات کو تابندہ تر کر دیا۔ دوسری جانب ان کی نظم گوئی نے جدت کی راہ تلاشی۔

e1c98d29 c8f1 4e58 8e3f bcbf9ee554da
بے شک شعر و ادب میں غالب اور اقبال کے بعد فیض کا مقام بلند تر رہا۔ مگر ان کی شخصیت اور بہت سے گونا گوں حوالوں سے معروف رہی۔ بطور نظریاتی دانشور وہ مختلف فکر کی طرف راغب ہوئے۔ ترقی پسند سوچ کی آبیاری و ترویج میں عملی طور پر کردار ادا کیا۔ ادب برائے زندگی کے کاز کو لے کر انہوں نے سماج اور سماجی عوامل پر ادب کی قوت و اثرات کو منوایا۔ دیس پردیس کے آزادی اور آزادی فکر، ہر طور سے محروم طبقات کے لیے آواز بلند کی۔ یہی نہیں بلکہ صحافت کی کانٹوں بھری راہ پر بھی پوری تمکنت اور افتخار سے چلے۔
ان کا صحافتی کردار بالعموم تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
یوں تو فیض، 1937 سے 1939 تک ترقی پسند ادب کے نمائندہ رسالہ’ ادب لطیف’ کی ادارت کر چکے تھے۔ اس کے بعد فوج میں بہ طور کپتان شامل ہوئے پھر جلد ہی شعبہ نشر و اشاعت میں منصبی ذمہ داریاں انجام دیں۔ یہاں بھی ترقی اور خصوصی اعزاز کے مستحق ٹھہرے۔
مگر عملی طور پر انیس سو سینتالیس میں صحافت میں قدم دھرے، جب چیف ایڈیٹر کے طور پر موقر انگریزی اخبار ‘پاکستان ٹائمز’ کا اجراء اور بعد ازاں کامیاب اشاعت کی۔ پاکستان ٹائمز کے قیام کے ایک سال بعد، 1948 میں اردو روزنامہ ‘امروز’ بھی کامیابی سے جاری کیا گیا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اپنے مدلل اور ٹھوس مگر جاندار اداریوں کی بدولت یہ دونوں اخبارات نہ صرف ملکی قارئین بلکہ غیر ملکی میڈیا کی بھی توجہ کا مرکز رہے۔ اسی دور میں حکومت وقت نے آزادی اظہار رائے کو پابند کرنا چاہا۔ احتجاج اور عملی جد و جہد میں، فیض بھی دیگر صحافیوں کے ہمراہ سرگرم رہے۔ اپنی گرفتاری اور پھر رہائی کے بعد بھی حکومت پر سخت تنقید سے نہیں گھبرائے اور رائے عامہ کی ترجمانی کا فرض ادا کرتے رہے۔ PPL کے زیر اہتمام رسالہ ‘لیل و نہار’ 1957 میں جاری کیا گیا۔ فیض کی زیر ادارت ان اخبارات اور پھر لیل و نہار نے صحافت میں باوقار پہچان بنائی، نت نئے رجحانات متعارف کروائے۔
ایوب دور میں سیفٹی ایکٹ کی زد میں آنے والے ‘لیل و نہار’ کے سبط حسن،اور ‘امروز’ کے مدیر احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ساتھ فیض بھی, پھر گرفتار ہوئے۔ 1970 میں، اپنے دوسرے دور میں فیض دوبارہ ‘لیل و نہار’ سے منسلک ہوگئے تھے۔
جب کہ صحافتی خدمات کا تیسرا دور بیرون ملک بیروت سے شائع ہونے والے عالمی جریدے Lotus کی ادارت کے دورانیے پر مشتمل ہے۔

فیض کی صحافتی زندگی بھی بہت ہنگامہ خیز رہی ۔۔ وسیع المطالعہ دانشور فیض جن کو کئی زبانوں پر عبورحاصل تھا۔ جن کے دیس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کی مختلف انجمنوں اور شخصیات کے ساتھ روابط کی بنیاد پر، ملکی اور عالمی سیاسی و ادبی افق پر رونما ہونے والی مسلسل تبدیلیوں پر رائے عامہ کو متحرک کیے رکھا۔ آزادی فکر کی قیمت پر، کسی قسم کے لالچ اور سمجھوتے کے جھانسے میں نہیں ائے۔ یوں اپنے کلام کی زندہ جاوید تفسیر عملی صورت میں پیش کی۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

نوٹ: تحریر عجلت میں لکھی گئی ہے۔ کسی قسم کی غلطی کا امکان بہرحال رہتا ہے۔ اصلاح کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ شکریہ

حبیبہ طلعت

ایک تبصرہ چھوڑ دو