1857 کی جنگِ آزادی اور مری کے قبائل

تحریر و تحقیق ۔محمد امجد چوہدری

مئی 1857 میں جنگ آزادی جونہی شروع ہوئی تو اس کی آگ کے شعلے خطہ پوٹھوہار تک آ پہنچے ۔ انگریز سامراج نے اسے غداری کا نام دیا ۔بعد میں یہ دور غدر کے نام سے موسوم ہوا ۔

پنجاب میں 1857ء کی جنگ آزادی واحد مری کے پہاڑوں پر لڑی گئی ۔

جس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے وہاں کی نرینہ آبادی کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اور فوج میں ان کی دوسری جنگ عظیم تک بھرتی بند کر دی تھی ۔ مری کے قبائل نے ترک بھائیوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے انکار کیا اور under ground ہو گئے ۔ کیونکہ انگریزوں نے ان کے سروں پر بولی لگا دی تھی ۔ اور انہیں پیشہ وارانہ ڈاکووں سے قتل کرایا گیا ۔ انگریزوں نے قبائل کے حملے پر قابو پانے کے لیے کشمیر پوائنٹ کے جنوب میں موجودہ بوسٹر والی جگہ پر ایک قلعہ بنایا تھا ۔ جہاں انہیں سزائیں دی جاتیں اور اس قلعہ میں انہیں توپ کے سامنے کھڑا کر کے گولے داغ کر شہید کیا جاتا تھا ۔ کشمیر پوائنٹ میں یہ جگہ آج بھی باغ شہیداں اور مسجد شہیداں کے نام سے مشہور ہے ۔ فریڈ اے رابرٹسن راولپنڈی گزیٹئر میں لکھتے ہیں کہ مری کی پہاڑیوں نےاپنی خودمختاری کچھ زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رکھی ۔ ملکا سنگھ نے یہاں کے راوسا کو 107 پہاڑی دیہات کی جاگیریں عطا کیں ۔ لیکن وصول کنندگان نے بمشکل ہی اس تحفے کو اہمیت دی ۔ پہاڑی باشندوں نے انیسوی صدی کے آغاز تک سکھ راج کو حقیقی معنوں میں نہ مانا ۔ جبکہ سکھ عہد سے قبل یہ خطہ قطعی طور پر خود مختار تھا ۔ پہاڑی قبائل اس انگریز سامراج اور سکھا شاہی راج سے خوش نہیں تھے ۔

images
1831ء میں مری کی پہاڑیاں کشمیر کے گلاب سنگھ کو بطور جاگیر مل گئیں ۔جس نے آہنی طریقے سے حکومت کی ۔ گلاب سنگھ کا دور پوٹھوہار کی کا پر آشوب اور تعفن سے بھرپور دور تھا۔ ۔ کہا جاتا ہے جب بھی دیہاتی سر اٹھانے کی کوشش کرتے تو وہ ڈوگروں کے ایک دستہ کو ان کی جانب روانہ کر دیتا ۔ جنہیں ہر مقتول دیہاتی کے عوض انعام ملتا ۔ شروع میں یہ انعام کی رقم ایک روپیہ تھی ۔ جو بعد میں آٹھ آنے اور پھر چار آنے ہو گئی ۔ ان طریقوں سے آبادی کو مٹانے کی کوشش کی گئ ۔ یعنی جتنے انسان مارو اتنی چونیاں لے لو ۔ تاریخ انسانی میں انسان کی اتنی ارزاں قیمت کبھی نہیں لگائی گئی ۔
حکم دیا گیا کہ مری، ہری پور، ایبٹ آباد، کہوٹہ کے جس علاقہ سے کم از کم پچاس 50 سر روزانہ رجسٹر میں درج نہیں ہوں گے اس پر تاوان ڈالا جائے گا ۔
جنگجو مسلح قبائل کی کردار کشی کی گئ ۔ ہندو بنیے نے ریکھ ،سود،رہن ، قرقی ، گڈھ کھلائ ، اور پگڑی جیسے انتہائ قبیح اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے زمیندار طبقے کا استحصال کیا ۔ اس ستم کوشی کی وجہ سے کئ قبائل اپنی ذات بدلنے پر مجبور ہو گئے ۔
سکھوں نے مری کی آبادی پر دروازہ ٹیکس عائد کر دیا تھا جو اتنا ناپسندیدہ تھا ۔ کہ لوگوں نے بغاوت کر دی ۔ اور سکھ ان پر انتقاماً ٹوٹ پڑے ۔ ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ ڈینزل ابٹسن لکھتا ہے کہ 1837 میں سکھوں نے ڈھونڈ قبیلے کو قریب قریب ختم کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کرنل کرافٹ بھی مری کے قبائل کو حریت پسند لکھنے پر مجبور ہوا ۔

اس سے قبل 1846 میں جب سکھوں اور انگریزوں کے درمیان پہلی لڑائی میں انگریزوں کو فتح ہوئی تو آزادی کی جنگ کے شعلے بھڑکا دیے گئے اس میں مری اور ہزارہ کے قبائل نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور پیران پلاسی کے ساتھ مل کر سب سے پہلے قلعہ ماڑی پر حملہ کیا ۔اور دیوان مولراج کی بھیجی گئ فوج کے دو دستوں کو شکست دے دی ۔
قلعہ ماڑی اور قلعہ دناہ ہمیشہ سکھوں اور انگریزوں کے لیے دردِ سر بنے رہے ۔ ان دونوں قلعوں پر قبائل نے کئ بار منظم حملے کیے اور سکھ فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ۔ 1849ء میں برطانوی فوج کے ایک دستے نے تریٹ اور نند کوٹ میں کیمپ قائم کیے ۔
1857ء کے واقعات کے متعلق پنجاب میوٹنی رپورٹ میں کمشنر مسٹر تھارٹن بتاتے ہیں کہ مری کے قبائل دعائے خیر کر چکے تھے اور حملے کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس دوران علاقے کا محاصرہ کر کے 11 دیہات کو جلا دیا گیا ۔ ان کے مویشیوں اور مردوں کو پکڑ لیا گیا ۔ 27 آدمیوں نے سزا پائ ۔ جن میں سے 15 کو سزائے موت ملی ۔ جلائے گئے 11دیہات کا دھواں دور سے نظر آ رہا تھا ۔17 اکتوبر 1857 کو سید کرم علی ،ڈاکٹر رسول بخش ،ڈاکٹر امیر علی کو پھانسی دی گئ ۔

1857 کی جنگ آزادی کا ذکر کرتے ہوئے عزیز ملک لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کے تین حریت پسند اور بیدار مغز افراد نے جنگ آزادی کے شعلے بھڑکانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ان میں ایک سید کرم تھا جو قلعی گر کا بھیس بدل کر مری اور جہلم جاتا اور زمین ہموار کر کے واپس آ تا اور ہر جگہ پر حفاظتی تدابیر عمل میں لائ گئ تھیں ۔
مری میں یونٹوں کے اندر کوئ بھی مقامی سپاہی نہیں تھا جس کی وجہ وہاں حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں تھی مگر ساری سول آبادی ہتھیار بند تھی ۔ فوجی یونٹوں کی نقل و حرکت محدود تھی ۔ہر وقت ان پر خطرات منڈلاتے رہتے ۔

2ستمبر 1857 کی رات مری کی سر سبز وادی اس وقت آذادی کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی جب کھنی تاک کی ایک بڑھیا جس کا نام سنا تھا ایک میم کے ہاں ملازم تھی اس نے اسسٹنٹ کمشنر کو مخبری کر دی کہ قبائل حملے کی تیار کر رہے ہیں. ایک اور روایت کے مطابق یہ مخبر حاکم نامی شخص تھا ۔ اس وقت فوری طور پر ایبٹ آباد اور راولپنڈی سے مری گیریژین کی حفاظت کے لیے دو کمپنیاں منگوائی گئیں ۔ جونہی جری اور شجاع قبائل کے مجاہدین نے حملہ شروع کیا ۔ تو مال روڈ کے ارد گرد سرکاری فوج پہلے سے گھات لگائے بیٹھی تھی ۔ ان پر جوابی کاروائی کی اور حملے کو پسپا کر دیا ۔ اس مخبری کی وجہ سے قبائل کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور وار کاری نہیں پڑا ورنہ نتائج مختلف ہوتے لیکن اس حملے سے خطہ پوٹھوہار میں آذادی کی ایک نئ لہر پیدا ہوئی ۔ ۔ حریت پسندوں کو بہادری کی یہ سزا ملی کہ نہ صرف ان کا وار خالی گیا بلکہ ملحقہ دیہاتوں میں قتل و غارت کی گئی اور مکانات کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ مری کے 22 فرزندان توحید بمعہ سردار باز خاں شہید کے جو بغاوت کے سربراہ تھےکو انگریز سرکار کے خلاف بغاوت اور جنگ آزادی کے جرم میں توپ دم کیا گیا ۔ ان بائیس شہداء میں سے صرف بھتیاں گاوں کے مورث اعلی سردار بہرام خان عباسی کے فرزند سردار روشن علی خان کی نشان دہی ہوئی ہے جن کی قبر باغِ شہیداں مری میں ہے. اس وقوعہ کے بعد کئی دیہات مکمل جلا دیے گئے اور زمینیں ضبط کر لی گئیں. .

اسی دوران انگریزوں کے خلاف ماندلہ کے نادر خان نے صدائے حریت بلند کی ۔ اس کا ساتھ پوٹھوہار کے مختلف قبائل نے دیا ۔ نادر خان کو شیر خان چاکری والے اور رتن چند سیدپور والے کی مخبری سے مارگلہ کی پہاڑیوں سے گرفتار کر کے شاہ دی ٹاہلیاں قبرستان میں کوہلو میں پیل کر شہید کیا گیا۔ جو اس دور میں سخت ترین سزا سمجھی جاتی تھی انکی تدفین بری امام مزار کے احاطے میں ہوئ۔اس وجہ سے پھروالہ کا یہ خاندان ایک بار پھر زیر عتاب آ گیا. .

تحریکِ ریشمی رومال اور تحریکِ خلافت میں بیروٹ کے مولانا عبدالرحمن اور پھروالہ کے راجہ کرم داد خان اور دیگر کئ زعماء کے نام آتے ہیں ۔ مولانا عبدالرحمن پیر فقیراللہ بکوٹی کے سوتیلے بیٹے تھے ۔ 1914 میں جب پیر فقیراللہ بکوٹی مرحوم نے انجمن مجاہدین کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو انگریز فوج میں بھرتی نہ ہو نے کی ترغیب دی تو اس انجمن کے سرگرم کارکن پیر خان اور مولانا عبدالرحمن تھے ۔ مولانا عبدالرحمن نے سری نگر میں ڈوگرہ فوج کی فائرنگ سے جامِ شہادت نوش کیا ۔ 1857 میں جنگ آزادی کے دوران علماء کے فتوی پر دیسی سپاہیوں نے گولی چلانے سے انکار کیا ۔ کیونکہ گولی پر سور کی چربی لگی ہوتی تھی اور اسے منہ سے کھولنا پڑتا تھا ۔ اس دورا ن انگریز نے علماء کو ہر طرح کے رابطے سے خارج کر دیا ۔ اور انکی تذلیل کی گئ ۔جنہوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا ان کی جائیدادیں ضبط کر گئیں اور انہیں بے دخل کر دیا گیا ۔

689148f6 1d24 4ae1 9d8a 5dc76152e3f9
مری کے قبائل میں تحریک آذادی کی شمع بیدار کرنے میں سردار باز خان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ جنہوں نے گاوں گاوں جا کر لوگوں کو منظم کیا ۔سردار باز خان عباسی ملوٹ ڈھونڈھاں کے رہنے والے تھے انہیں مری کے ایجنسی گراونڈ میں توپوں کے سامنے کھڑا کر کر کے شہید کیا گیا ۔ اور انگریز سرکار نے اسی انتقام میں مسیاڑی کی تمام اراضی بھی ہتھیا لی ۔ اور محمکہ مال کے خانہ ملکیت میں پنجاب سرکار کا نام درج کر دیا ۔ ان کے ساتھ ساتھ ان دو ڈاکٹروں رسول بخش اور امیر علی کی رضاکارانہ خدمات تاریخ کا سنہری باب ہیں جنہیں پھانسیاں دی گئیں ۔

جب تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی تو اس وقت مری رجمنٹ کے ان سرفروش مجاہدوں کا مرکز پوٹھہ شریف تھا ۔ ان کا کمانڈر انچیف بھی پوٹھہ شریف کا رہنے والا ایک ریٹائرڈ صوبیدار تھا ۔ نوجوان گروہ کی شکل میں گاوں گاوں گھومتے اور لوگوں کو اس رجمنٹ میں شامل ہونے کی تلقین کرتے تھے ۔ انہی رضاکاروں کا ایک گروہ درہ آدم خیل سے تھری ناٹ تھری کی رائفلیں لانے پر مامور تھا ۔اس جنگ آذادی میں نہ جانے کتنے لوگ شہید ہوئے ۔ وہ پندرہ یا بائیس شہداء جنہیں توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا آج ان نام سے بھی کوئ واقف نہیں ۔ شاید ان کے قبیلے کے لوگ یا ان کی اولادوں کی اولاد اپنے ان اجداد کے کارناموں سے واقف ہو ۔ جو ان کی یادوں سے اور ان کے کارناموں سے پردہ اٹھا سکے ۔ اس کے نتیجے میں ہم بھی ان تحریکِ آذادی کے گمنام سپاہیوں کو جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر خراج عقیدت پیش کر سکیں ۔ سردار باز خان اور انکے ہمراہیوں کی تحریک آزادی کے لیے پیش کی گئی خدمات سےآگاہی آج کی نسل کے لیے اشد ضروری ہے ۔ تاریخ کے گم شدہ اوراق سے پردہ اٹھانے سے تاریک ترین دور نئ نسل کے سامنے آئے گا اور تب جا کر انہیں آذادی کی قدرومنزلت کا احساس ہو گا ۔ ۔ ۔

26572d7f 0510 4c28 b3a5 b40637f8eec2

تصویر سردار باز خاں شہید کی ہے جو لاہور میوزیم میں یادگار کے طور پر رکھی گئی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو