یوم خواتین کی حقیقت۔۔۔۔۔ام عزوہ کی ایک اچھوتی تحریر
"آج کیا ہے ؟
"آٹھ مارچ ہے”
"اچھا تم فیمنسٹ آنٹیوں کے حق میں یہ دیے روشن کر رہی ہو؟”میں نے حیرانی سے پوچھا۔
"نہیں”اس نے تلخ لہجے میں تیزی سے سر ہلاتے ہوئے نفی کی۔
"پھر”میں حیران تھی۔۔
"یہ میری چند سہیلیوں کی یاد میں ہیں”
"اوہ۔۔کہاں ہیں تمہاری سہیلیاں..؟”میں نے پوچھا تھا۔۔
"حالات کی اور کچھ اپنے جذبات کی نذر ہو گئیں۔”وہ کھوئے ہوئے لہجے میں کہتی ہر دیے کے ساتھ ادھ جلا گلاب رکھتی گئی۔۔۔ماحول پر عجیب یاسیت طاری ہونے لگی تھی۔ میں گھبرا گئی۔۔ کچھ دیوں پر شعلے سے لپٹ رہے تھے، کچھ بس ایک ہی ردھم میں ٹمٹما رہے تھے۔شام سرمئی سے سرخ محسوس ہونے لگی تھی۔
کسی دیے کے پہلو میں سرخ گلاب تھا تو کسی کے پہلو میں زرد۔۔۔تمام گلاب ادھ جلے نامکمل تھے۔۔میں اس کی آنکھوں میں چھپے ان تمام گلابوں کا درد پڑھنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر ناکام ہو کر اس سے پوچھا۔
” کیا تم مجھے ان جلتے چراغوں اور بجھتے گلاب کی کہانی سنانا پسند کرو گی؟”
"ہاں کیوں نہیں… یہ جو سفید گلاب کے ساتھ جلتا بجھتا دیا ہے یہ میری سہیلی نغمانہ کی یاد میں ہے۔۔۔جس کو ہمیشہ سسرال والوں سے کم جہیز لانے کا طعنہ ملتا رہا۔۔۔ہمیشہ ڈیمانڈ کی گئی کہ وہ اپنے مزدور باپ سے کچھ نہ کچھ مانگتی رہے۔۔آخر کار اس نے سولی پر ٹنگی آزادی کو اپنا لیا اور ان ذلتوں سے کنارہ کر گئی۔۔ میں اس کی یاد میں ہر آٹھ مارچ کو یہ دیا روشن کرتی ہوں کہ شاید ان کے پلے کارڈز میں عورت کے اس دکھ پر بھی آواز اٹھائی جائے”
تیز ہوا چلی تھی زرد گلاب کے پہلو میں جلتا دیا بجھنے لگا۔۔۔ارے ارے۔۔۔وہ لپکی۔۔۔دیا روشن رہے اس کی پوری کوشش تھی۔۔
"اس زرد گلاب کی کیا کہانی ہے”؟میرا تجسس بڑھا۔۔
"یہ غربت کی دہلیز پر بیٹھی اپنے نصیب کی سیاہی کو چاندی بھرے بالوں میں ڈھونڈتی ہے۔۔۔بالوں سے سیاہی اتر کر اس کے نصیب پر جم گئی ہے۔ باپ کی غربت اس کی شادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر، اور لوگ غریب کی بیٹی سے کنی کترا کر گزرنے والے۔۔کاش کہ اجٹ کے مارچ میں عورت کے اس درد پر آواز اٹھائی جائے کسی بینر پر لکھا ہو۔۔”ہمیں بھی پھول چننے دو”۔۔۔
"ان بینرز میں تو لکھا ہوتا ہے۔۔ "اپنا کھانا خود گرم کرو ". "میرا جسم میری مرضی "میرا لہجہ تلخ ہونے لگا۔۔”
"یہی تو بات ہے یہ عورتیں ہی عورت کا دکھ نہیں جانتیں۔۔۔یہ تمہیں جو سفید گلاب نظر آرہا ہے نا۔۔یہ میری سہیلی ہے حوریہ۔۔ حور کی طرح خوبصورت حسین۔۔ہمارے گاؤں میں جو ملک ہیں نا۔۔۔ ان کی اکلوتی بیٹی۔۔پچھلے دنوں جائیداد کے بٹوارے سے بچنے کے لیے اس کی شادی قرآن سے کر دی گئی ہے۔ وہاں کے جاہل لوگ اب اس لڑکی کا احترام بھی کسی مقدس شے کی طرح کرتے ہیں۔۔ سراہے جانے کے خوبصورت خوابوں پر قفل لگادیا گیا ۔۔آرزوئیں یا تو اسے چور راستہ مہیا کریں گی یا پھر اس کا حسن اس کا خوبصورت وجود آپ اپنی اگ میں دہکتا بھسم ہو جائے گا۔۔۔۔لیکن جائیداد بس کہیں نا جائے۔۔۔حقدار کا حق اس کی آرزوؤں کے ساتھ دبا لیا جائے گا۔ ان فیمنسٹ آنٹیوں کے جلتے دیو میں کہیں اس کا نام نہ ہوگا۔۔۔وہ مرد بیزار عورتیں جان نہ پائیں گی ان عورتوں کا کرب، جن کے سینوں میں کرلاتے دکھ ان کی راتوں کو بین زدہ کر دیتے ہیں۔۔” میری سہیلی کی آواز میں ایک نہ بھرنے والا خلاء تھا جو دل کو چیر رہا تھا۔۔
"یہ جو کلیاں ہیں۔ کچھ دیوں کے ساتھ رکھی ہیں ۔۔میرے گاؤں کی وہ بچیاں ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب دیکھتی، کھیتوں میں گندم کٹائی کے دوران اپنے ان خوابوں کو بھی درانتی سے کاٹتی جاتی ہیں جن میں تصور کی آنکھ سے وہ ہاتھوں میں ڈگریاں سنبھالی تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتی ہیں۔انہیں گندم کی فصل تیار ہونے پر کٹائی کے لیے تو نکلنے کی اجازت ہے لیکن کسی درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے کی اجازت اس لیے نہیں کہ وہاں عام خیال ہے کہ یہ عورتیں زیادہ پڑھ لکھ جائیں تو ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔۔”وہ تلخی سے مسکرائی تھی اور جانے کیوں میرے حلق سے ایک زہر آلود قہقہہ نکل کر کمرے کے چہار طرف گونجنے لگا تھا ۔۔”یہ عورتیں زیادہ پڑھ لکھ جائیں تو ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔”
خدا ان ہاتھوں کو ایسا باوقار بنائے کہ عورت کے احساسات کی قدر کر سکیں۔اور خدا ان آزادی مارچ کی آنٹیوں کو حق سمجھائے جنہیں خود نہیں علم کہ ہمارے سماج کی عورت چاہتی کیا ہے۔