یوسفی کے ’’ چراغ تلے‘‘ تقلیب و تصرف کا اُجالا(قسط نمبر 6)

عبدالخالق بٹ

نیز اقتباس بالا میں نیم جان ۔۔۔۔۔ پورا حکیم ، کا بیان محاورہ ، نیم حکیم خطرہ جان ‘ سے کشیدہ کردہ ہے۔

کمرہ عدالت

اپنی بیماری اور ہمسائے کی جانب سے بیما پرسی کے احوال میں لکھتے ہیں:۔

کمرہ علالت میں بہ نفس نفیس تشریف لائے اور خوب کُرید کُرید کر جرح کرتے رہے۔ بالآخر اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر رازدارانہ انداز میں کچھے ایسے نجی سوالات کیے جن کے پوچنے کا حق میری نا چیز رائے میں بیوی اور مُنکیر نکیر کے علاوہ کسی کو نہیں پہنچتا ۔

یہ قلم کی کاریگری نہیں تو کیا ہے کہ بہ نفس نفیس تشریف لانے، خوب کُرید کُرید کر جرح کرنے اور رازدارانہ انداز میں نجی سوالات پوچھنے کی رعایت سے ایک بیمار کے کمرے کو کمرہ علالت قرار دیا گیا۔ یوسفی نے جس خوبی سے کمرہ عدالت کو کمرہ علالت سے بدلا ہے وہ داد سے بالا ہے۔

نبض پہ ہاتھ دھرے ۔۔۔۔۔۔۔ اور بیمار مباش

’ ایک بزرگوار‘ کے انداز بیمار پُرسی اور اس ذیل میں ڈانٹ ڈپٹ کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’ ایک ہی سانس میں خدانخواستہ سے انا للہ تک کی تمام منزلیں  طے کرلیتے ہیں۔اُن کی منظوم ڈانٹ کی تمہید کچھ اس قسم کی ہوتی ہے:۔

میاں! یہ بھی کوئی انداز ہے کہ گھر کے رئیسوں کی طرح

نبض پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

بیکاری بیماری کا گھر ہے، شاعر نے خوب کہا ہے :۔

بیمار مباش کچھ کیا کر‘۔

اس اقتباس میں پہلا مصرع علامہ اقبال کے درج ذیل مشہور شعر میں تصرف کا نتیجہ ہے۔

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

تاہم یوسفی نے مخصوص سیاق و سباق میں جس خوبصورتی سے ’ نبض پر ہاتھ دھرے‘ برتا ہے ، اس نے صورتحال کومجسم کر دیا ہے۔

اس مقام سے آگے جہاں بیمار مباش کچھ کیا کر ‘، کو مصرع بتا کر شاعر سے منسوب کیا ہے،

وہ اصلاً ضرت المثل ہے جو لغت میں اپنی مکمل صورت میں اس طرح درج ہے :۔

بیکار مباش کچھ کیا کر کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر‘

بہر حال اس ادھوری ضرب المثل میں ’’بیکار‘‘ کو ’’ بیمار‘‘ سے بدلنے پر پورا لطف موجود ہے۔

فیضان علالت اور عرفان علالت

مرزا عبدالودوبیگ کے ذکر میں رقمطراز ہیں:۔

’ اکثر فرماتے ہیں کہ بیماری جان کا صدقہ ہے، عرض کرتا ہوں کہ میرے حق میں تو صدقہ جاریہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے خالی بیمار پڑے جانے سے کام نہیں چلتا ۔ اس لیے پسماندہ ممالک میں

فیضان علالتعام سہی، عرفان علالت عام نہیں

مذکورہ مصرع جگر مراد آبادی کی غزل سے ہے۔ مکمل شعر درج ذیل ہے:۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

صاف ظاہر ہے کہ یوسفی نے مصرع میں ہر دو جگہ موجود’ محبت ‘‘ کو ’’ علالت‘‘ سے بدل کر ایک سنجیدہ بات کو پُر لطف بنا دیا ہے۔

غذا بالجبر

ایک تیمار دار بزرگ کی ’’ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘ ، قسم کی باتوں کے سبب آنے والے خوابوں کے احوال میں لکھتے ہیں:۔

’ کیا دیکھتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھائوں میں ، سنا کی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔

اس اقتباس میں جھاڑیاں ، غلمان، مولوی اور معجون کے درمیان ’ غذا بالجبر‘ کی ترکیت خاصی معنی خیز ہے۔ ان میں ’’ جھاڑیاں‘‘ پردے کی ، غلمان و مولوی ’ اغلام‘ کی اور معجون اُس کمزور کا استعارہ ہے جس کا دفعہ عہ زوال میں اطباء ہند ا مقصد وحید بن کر رہ گیا تھا۔ یوں سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ ’’ غذا بالجبر‘‘ در اصل ’’ زنا بالجبر‘‘ کی تقلیب ہے۔

2۔ کافیی

منہ سے یہ کافی لگی ہوئی

اپنے کرداروں کی زبانی کافی کے کوائف وخصائص کے بیان میں لکھتے ہیں:۔

’ ایک صاحب اپنی پسند کے جواز میں صرف یہ کہہ کر چُپ ہو گئے کہ چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافی لگی ہوئی ۔

اس مصرع میں ’’ کافی ‘‘ کا لفظ اس قدر ہر محل اور فطری ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ جب کہ یہ اصلاً استاد ابراہیم ذوق(1854-1790) کامصرع ہے، جس میں یوسفی نے ’’ کافر‘‘ کو کافی سے بدل کر مصرع اور کافی ، ہر دو کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔ مکمل شعر درج ذیل ہے،۔

اےذوق دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہےے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ۔

تشخیص ناک

کافی کی مذمت میں لکھتے ہیں:۔

’ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کہیں کافی سے چڑ کی اصل وجہ معدے کے ہ داغ (ULCERS) تو نہیں جن کو میں دو سال سے لیے پھر رہا ہوں اور جو کافی کی تیزابت سے جل اُٹھے ہیں۔

اور اس کے بعد وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظر وں سے گھورنے لگے‘

کردار کی زبانی کافی بیزاری کا سبب شکم دوز بیماری میں ڈھونڈنا اور اس نسبت سے موصوف کو تشخصیص ناک نظروں سے گھورنا لاجواب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ترکیب’ تشویشناک کو موع و محل کی مناسبت سے ’’ تشخیص ناک‘ سے بدلا گیا ہے۔

اللہ شافی اللہ کافی

کافی کی مذمت مزید کے ساتھ رقمطراز ہیں:۔

قصبوں میں کافی کی بڑھتی ہوئی کھپت کی غالباً ایک وجہ یہ ہے کہ عطائیوں نے اللہ شافی اللہ کافی کہہ کر مئوخر الذکر کا سفوف اپنے نسخوں میں لکھنا شروع کردیا ہے‘۔

اس اقتباس میں کمال یہ ہے کہ کوئی لفظ بدلے بغیر مخصوص سیاق و سباق میں عربی لفظ ’’ کافی ‘‘ کو انگریزی کافی (COFFEE) کے معنی عطا کر دیے ہیں۔ یوں پڑھنے والے کا دیان کافی بمعنی کفایت کرے والا کی طرف نہیں جاتا ، بلکہ اس کے ذہن میں گرما گرم ’’ کافی‘‘ سے بھرا کپ آ جاتا ہے۔

کافی کا سا گھونٹ

ایک کافی نوش کے بیان میں لکھتے ہیں کہ :

’’ پھر کیا ہوا؟’ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا

’ میں نے دودھ دان میں سے کریم نکالی‘ انہوں نے جواب دیا

میں نے پوچھا ’ شکر دان میں سے کیا نکلا؟‘

فرمایا ،شکر نکلی ، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے ؟

مجھے غصہ تو بہت آیا ، مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔

محاورہ زہر کا سا گھونٹ بھرنا ہے۔ مگر چونکہ قصہ کافی بیزاری کا ہے، سو ’’ زہر ‘‘ کو کافی سے بدل دیا ہے۔ پھر اس بیزاری میں دو باتوں کا ابلاغ مطلوب تھا۔ اول یہ کہ ’’ کافی ‘‘ کا حقیقی ذائقہ حد درجہ تلخ ہوتا ہے اور دم یہ کہ اسی تلیخی کے باعث انہیں کافی زہر معلوم ہوتی ہے۔

گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!

کافی کے عیوب گنواتے ہوئے لکھتے ہیں۔

سچ عرض کرتا ہوں کہ میں کافی کی تندی و تلخی سے ذرا نہیں گھبراتا ، بچپن ہی سے یونانی دوائوں کا عادی رہا ہوں اورقوت برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!

لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے۔

مصرع میں ’’ گالیاں ‘‘ کی جگہ ’’ گولیاں‘‘ جس سہولت سے سمایا ہے اس نے اپنی جگہ ایک نیا مصرع وضع کر لیا ہے۔ قیاص کہتا ہے کہ اگر غالب نے اس مصرع میں ’’ گولیاں‘ ہی باندھا ہوتا تو بھی یوسفی حسب موقع اسے’’ گالیاں‘‘سے بدل لیتے ۔ بہر حال غالب کے جس مصرع میں تقلیب لطیف ہوئی ہے وہ مکمل شعر کے ساتھ درج ذیل ہے:۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ایک تبصرہ چھوڑ دو