ہماری اماں ۔۔۔۔۔
خطہ کوہسار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سجاد عباسی کی تحریر جو آپ کا بچپن لوٹا دے گی

بہ شکریہ ..فیس بک
مجھے لگتا ہے کہ محبت، شفقت، دعا اور صبر و رضا کی کوئی مجسم صورت ہوتی تو وہ ہماری اماں کی شکل میں ہوتی۔۔ میں اپنی دادی کی بات کر رہا ہوں، جنہیں ہم سب پوتے پوتیاں” اماں” کہا کرتے تھے. محلے اور گاؤں والوں کے لیے تو وہ "بووو” تھیں. اس زمانے میں "بووو” کا لفظ والدہ کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا آپ اسے پنجابی کی بےبے یا بےجی کا متبادل کہہ سکتے ہیں۔ اب یہ عنوان گاؤں دیہات میں بھی متروک ہوتا جا رہا ہے، بالکل پرانی روایات اور اقدار کی طرح۔۔
تب محلے یا گاؤں کی بڑی بوڑھیاں سب کے لیے ماں یا دادی کا درجہ رکھتی اور ویسا ہی احترام پاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے اسکول سے واپسی پر ہمارے ایک کلاس فیلو کی نانی اماں اگر راستے میں مل جاتیں تو اپنی قمیض کے اندر پہنی بنیان کی زنبیل نما جیب میں سے ٹافیاں نکال کر ہم آٹھ دس بچوں میں برابر تقسیم کرتیں ، گویا وہ ہم سب کی "برابر کی” نانی ہوں۔
اماں ہم بہن بھائیوں کے لیے سراپا شفقت تھیں۔ میری طرح ہر بہن بھائی اور تایا کے بچے بھی اپنی اپنی جگہ خود کو اماں کا چہیتا یا چہیتی تصور کیا کرتے تھے اور اماں نے بھی کبھی کسی کے مان میں کمی نہ آنے دی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو ماں کے حصے کا پیار بھی دادی سے ملا کیونکہ اس زمانے میں گھر کے کام کاج کے ساتھ بھینس اور گائے بکری وغیرہ کے لیے چارے کا انتظام کرنا اور چشمے سے پانی بھر کر لانے کے علاوہ گاؤں کی غمی خوشی میں شریک ہونے کے بعد ایک ماں کے لیے بمشکل اتنا وقت بچتا تھا کہ وہ سب سے چھوٹے بچے پر کچھ توجہ دے یا دو چار گھنٹے کی نیند پوری کر لے۔
چنانچہ ہم بچوں کے ناز نخرے اٹھانے کا فریضہ اماں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا جسے وہ اس کمال سے نبھاتیں کہ خود ان کے لئے نماز اور چند گھنٹے کی نیند کا وقت ہی بچ پاتا۔۔ اچھا نماز کے لیے انہوں نے شمسی اور قمری توانائی کا خودکار نظام متعین کر رکھا تھا ۔سورج اور چاند بادلوں کی اوٹ سے بھی انہیں نماز کے اوقات ٹھیک ٹھیک بتا دیا کرتے۔ دھوپ کس وقت سامنے کھڑے موشپوری کے پہاڑ کے کس حصے میں پہنچی اور کب ڈھلی۔۔ کس وقت کون سا کام کرنا ہے، اسی بنیاد پر ان کا غیر اعلانیہ ٹائم ٹیبل خودکار انداز میں کام کرتا۔ انہیں گھڑی کی ٹک ٹک سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اب خیال آتا ہے کہ اماں ہمارے تو سارے کام کر لیا کرتی تھیں، ہم سے تو کبھی وقت تک نہ پوچھا تو ہم ان کے کس کام آئے۔
اماں گھر کی واحد بڑی تھیں جن کا کسی پوتے پوتی پر کوئی رعب نہ تھا،بلکہ ان کی آغوش ہم سب کے لیے پناہ گاہ تھی۔ ہم اپنی والدہ سے کبھی اتنے بے تکلف نہ ہوئے جو بے تکلفی اماں سے تھی،وہ غربت کے مارے گھر کے آنگن میں ایک شجر سایہ دار تھیں ۔۔ ایک پاکیزہ اور سخی روح جس کا دامن ہمارے لیے دعاؤں سے بھرا رہتا اور وہ جھولی بھر بھر دعائیں دینے کے بہانے ڈھونڈتی رہتیں، اتنی کہ ہم کبھی کبھار”تنگ” آ جاتے.. کوئی بچہ ذرا سا بیمار یا پھر تیار ہو جاتا تو نظر اتارنے لگتیں۔۔ اچھا ہماری اماں ویسے بھی نظر اتارنے کی اسپیشلسٹ تھیں۔ کسی کی بھینس ٹھیک سے دودھ نہیں دے رہی۔۔ کسی کی بکری کا تھن نظر بد کے نتیجے میں پھٹ گیا ہے یا کسی کی گائے پر نظرِ بد کا شبہ ہے تو مالکن یا مالک دوڑے دوڑے آتے اور اماں کے لعاب والی گھاس یا چارے کا نوالہ سا بنوا کر لے جاتے اور یہ اتنا زود اثر ہوتا کہ میں نے کبھی کسی مریض کے لیے کسی کو دوبارہ رجوع کرتے نہیں دیکھا ۔اسی طرح کوئی بچہ یا بچی اچانک بیمار پڑ گیا، کھانا پینا چھوڑ دیا تو نظر اتروانے کے لیے مائیں اپنے بچے کو اٹھائے بھاگم بھاگ اماں کے پاس پہنچ جاتیں اور بچہ گھنٹوں اور بعض اوقات تو منٹوں میں شفایاب ہو جاتا، البتہ ہم گھر کے بچے دادی کی اس "کرامت” کے کچھ زیادہ قائل نہ تھے۔۔ وہی "گھر کی مرغی دال برابر” والا معاملہ۔
ہمارا گاؤں مری سے ملحقہ اور ایوبیہ کی چوٹی سے نیچے پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جہاں آج سے 20 ،25 برس پہلے تک شدید برف پڑتی رہی ہے۔ ویسے بھی موش پوری پر برف باری کا سلسلہ جاری رہتا تو سال کے کم از کم چار ماہ تو شدید سردی پڑتی. ایسے میں ہمارا زیادہ تر وقت کچی چھت کے اس بڑے ہال نما کمرے میں گزرتا، جہاں چولہا ہر وقت جلتا رہتا۔ مقامی زبان میں اسے "سرنی” کہتے ہیں . پہاڑی علاقوں میں اس زمانے میں ہر گھر کے ساتھ ایک سرنی ہوا کرتی تھی مگر تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں اب کچے گھروں کی جگہ کنکریٹ اور رنگی برنگ برنگی جستی چادروں نے لے لی ہے تو سرنی بھی ماضی کی جلتی بجھتی راکھ کا حصہ بنتی جا رہی ہے ۔۔
خیر تو بات ہو رہی تھی سرد راتوں کی ۔۔اب نقطہ انجماد کو چھوتے درجہ حرارت میں مغرب کے بعد گرم کمرے سے اٹھ کر اوپر والے کمرے میں ٹھنڈے بستر پر جانا بھی ایک چیلنج ہوتا.مگر جب ہم بہن بھائی چولہے کے گرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اماں اس دوران ہم بھائیوں کی چارپائیاں جوڑ کر ان پر بستر لگا کر کچھ دیر وہاں بیٹھی یا لیٹی ذکر اذکار کرتی رہتیں اور کسی حد تک بستر گرم ہو جاتے تو ہمیں بلا کر لے جاتیں۔ان کی کوشش ہوتی کہ اس معاملے میں بھی کسی کی حق تلفی نہ ہو اور باری باری ہی سہی، سب کو یہ سہولت میسر آ جائے۔
جن دنوں ابا گھر پر نہ ہوتے تو ہم بھائی آزادی کو خوب انجوائے کرتے۔ اسکول سے واپسی پر برآمدے کی کھڑکی میں بستے ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کی شکل اختیار کر لیتے اورہم کھانا کھا کر سیدھے کرکٹ کھیلنے کیلئے دوڑ لگا دیتے۔ اماں چونکہ ہر ایک کا بستہ پہچانتی تھیں،تو واپسی پر ترتیب کے ساتھ ہمیں ہر بستہ "کلی” کے ساتھ لگا ہوا ملتا اور یہ طے ہوتا کہ یہ کام اماں ہی نے کیا ہو گا۔۔
اس زمانے میں ڈائجسٹ تفریح یا معلومات کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے مگر والدین نے بچوں کو”فرضی بے راہ روی” سے بچانے کے لیے اسے شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہوتا تھا۔ اب ہم بستر میں گھس کر ابن صفی کی کہانیاں، محی الدین نواب کا "دیوتا” یا احمد اقبال کا "شکاری” پڑھ رہے ہوتے تو اماں یہ سمجھ کر بار بار ہماری بلائیں لیتیں کہ بچہ پڑھائی میں کتنی محنت کر رہا ہے. وہ کبھی پانی تو کبھی چائے کا پوچھتیں اور گاہے سر بھی دبانے لگتیں۔ صرف یہی نہیں ابا کے سامنے اور کبھی کبھار رشتہ داروں کی موجودگی میں بھی فخر سے اپنے پوتوں کی پڑھائی اور محنت کے گیت گاتے نہ تھکتیں۔ اب ظاہر ہے بےچاری اماں کو کیا معلوم کہ جو ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ نصابی کتاب نہیں بلکہ ڈائجسٹ ہے جس کا مطالعہ قابل دست اندازی ہے پولیس ہے۔مگر شاید یہ اماں ہی کی دعاؤں کا اثر تھا کہ نصابی کتب میں زیادہ دلچسپی نہ لینے کے باوجود امتحان میں پوزیشن آجاتی اور اماں کے احساس تفاخر کا بھرم بھی رہ جاتا۔
ہمارے لئے اماں کی شفقت کسی دلیل یا منطق کی محتاج ہرگز نہ تھی ، پوتے پوتیاں چاہے گھر میں کتنی ہی تباہی مچا دیں ، کوئی انہیں کچھ نہ کہے۔۔بھائیوں میں سے کسی کو شرارت یا کسی نقصان پر والدہ یا والد سے مار پڑنے کی نوبت آتی جو کہ والدہ سے اکثر پڑتی رہتی تھی تو اماں ڈھال بن جاتیں اور کبھی اس مار کو "ضرر” کی سرحد تک نہ جانے دیتیں۔
بیساکھ کا مہینہ شروع ہوتا تو اماں دریک (یا نیم) کے پتوں کا کڑوا پانی تیار کر کے رکھتیں تاکہ ہم گرمی کے موسم میں پھوڑے پھنسیوں سے محفوظ رہیں۔ اب ظاہر ہے شدید ترین کڑوا پانی پینا ہم سب کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ۔ہم اماں سے جان چھڑا کر بھاگتے مگر اولاد کی محبت جیسے ان کے بوڑھے اور ناتواں وجود میں بجلی سی بھر دیتی۔ وہ ایک ایک کر کے سب کو کڑوا پانی پلا کر ہی دم لیتیں۔ خود انہیں کبھی شدید سر درد ہوتا جسے وہ "چنڈھ” کا نام دیتی تھیں ،تو وہ انڈا پھینٹ کر پی لیتیں اور بھلی چنگی ہو جاتیں۔ اس کے علاوہ ہم نے کبھی اماں کو بیماری کی شکایت کرتے یا روتے دھوتے نہیں دیکھا۔وہ اپنے کپڑے خود دھوتیں اور ہماری والدہ یا تائی اماں کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتیں۔ بظاہر ان کا یہی موقف تھا کہ میں دوسروں کے ہاتھ کی دھلائی سے مطمئن نہیں ہوتی، مگر آہستہ آہستہ ہم پر کھلا کہ اماں اپنی کسی بہو پر اضافی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتیں۔ اس زمانے میں بزرگ استری وغیرہ سے تو ویسے بھی بے نیاز ہوتے تھے، مگر اماں اپنے کپڑے تکیے کے نیچے رکھ کر رات بھر اس پر کوئی بھاری چیز رکھ دیا کرتیں، یہ ان کا استری کرنے کا اپنا انداز تھا ۔صفائی ستھرائی کے معاملے میں وہ مثالی شخصیت تھیں۔
ایک بات ہم بتانا بھول گئے کہ اماں آنکھ کے آپریشن کے بعد نظر کا چشمہ تو لگاتی ہی تھیں، ساتھ ان کی سماعت بہت کمزور تھی اور آخر وقت تک انہوں نے کبھی آلہ سماعت استعمال نہیں کیا۔ چنانچہ اونچا سنتی تھیں اور غیبت تو درکنار ہم نے کبھی کسی کے لیے ان کے منہ سے دعا کے علاوہ کوئی اور بات نہیں سنی۔البتہ کبھی کسی طرف سے دل آزاری والی کوئی بات پتہ چلتی تو متعلقہ فرد کے بارے میں بس یہی کہتیں ” اللہ اس کا بھلا کرے”
جب ابا کام کے لیے شہر جاتے یا ایک آدھ بار بیرون ملک گئے تو اماں بہانے بہانے سے ان کے بچپن یا نوجوانی کی باتیں یاد کر کے بظاہر ہنس رہی ہوتیں مگر ہمیں ان کی عینک کے پیچھے پتلیوں پر چمکتے اشک دکھائی دے جاتے جو ڈھلک کر ان کے جھریوں بھرے چہرے میں جذب ہو جایا کرتے۔ پھر وہ انگلی سے انہیں غیر محسوس انداز میں صاف کر کے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہتیں” وہ جانے، اس کی امانت۔ شکر اللہ تیرے نام پر قربان” یہ جملے وہ پہاڑی زبان میں اپنے انداز میں تقریباً روز ہی ادا کرتیں۔ ہمارے کان انہیں سننے کے عادی ہو گئے تھے ۔
جب میں چھٹی گزار کر واپس جا رہا ہوتا تو ہر بار اماں بازو میرے گلے میں حمائل کر کے نمناک انکھوں کے ساتھ کہتیں” پتہ نہیں پھر آؤ تو ملاقات ہو نہ ہو” اور میں ہر بار ہنس کر کہتا "اماں پوتے پوتیوں کی شادی کرائے بغیر تو آپ کہیں نہیں جانے والی۔اور اس کام کیلئے کم ازکم آدھی صدی تو درکار ہے کیونکہ ماشاءاللہ سے ہم آدھی کرکٹ ٹیم سے زیادہ ہیں ۔۔ بہت ساری اور باتوں کی طرح میری یہ بات بھی اماں کو سمجھ نہ آتی مگر وہ ہنس کر ماتھے پر بوسہ دے کر اور ہاتھوں سے بالوں میں کنگھی کر کے مجھے رخصت کر دیتیں۔مجھے اماں کی کھردری ہتھیلی اور انگلیوں کا لمس اب بھی ویسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔۔
اس بار بھی اماں نے حسب عادت گلے مل کر رخصت کیا اور نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتی رہیں ، مگر اس بار ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا ۔یہ نوے کی دہائی کا تیسرا سال تھا۔ایک دن کراچی میں پیغام ملا کہ ضروری کام ہے ۔گھر فون کرو۔ تب فون کرنے پی سی او جانا پڑتا تھا۔ میں بھاگم بھاگ ٹیلی فون بوتھ پر پہنچا ۔دھڑکتے دل کے ساتھ فون ملایا تو معلوم ہوا اماں چلی گئیں۔ میری آواز گلے میں رندھ گئی اور آنسوؤں کا نمکین ذائقہ حلق میں محسوس ہوا، اس کے بعد یاد نہیں کہ میں نے اس دن کچھ کھایا یا نہیں۔۔
اماں جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں مگر انہوں نے بہت ہمت اور خودداری کے ساتھ دو بچوں کو پالا۔تب لوگ زمین سے گہری وابستگی رکھتے تھے اور بنیادی ضروریات کھیتی باڑی سے پوری ہو جاتی تھیں۔پیسہ ناپید تھا۔۔اور بازار جانے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔ اماں سے پرانے زمانے کے قصے ہم بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک قصہ یہ بھی تھا کہ ان کے ایک بھائی جو کراچی میں کاروبار کرتے تھے ،ایک بار عید پر گاؤں آئے تو اماں کو ایک روپیہ دیا انہوں نے غالباً ایک من گندم کا آٹا (ہمارے علاقے میں مکئی وافر اور گندم کم ہوتی تھی)، چینی، پتی، ایک دوپٹہ اور کچھ دیگر سامان لیا پھر بھی دو آنے بچ گئے تو انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ یہ "رقم” کیسے خرچ کریں۔ میں یہ کہانی بڑی دلچسپی کے ساتھ دیدے پھیلا کر اماں سے بار بار سنتا اور ہر بار دل ہی دل میں یہ منصوبہ بناتا کہ جب میں کمانے لگوں گا تو کسی عید پر اماں کو پورے ایک ہزار روپے دوں گا تاکہ وہ جی بھر کے شاپنگ کریں، مگر یہ منصوبہ دھرے کا دھرارہ گیا اور اماں بہشت کی مکین بن گئیں۔
اساں نیں اماں
ترجمہ : راشد عباسی
میکی لگنا آ جے ہلس، شفقت، دعا تے صبر و رضا نی کوئی مجسم صورت ہونی تے اوہ اساں نیں اماں نی شکل وچ ویہہ آ۔ میں اپنے دادی ہوراں نی گل کرنا پیئا یاں، جنھاں کی اساں سارے پوترے پوتریاں”اماں” آخنے اسیاں. ٹہوک (محلے) تے گرائیں والیاں تائیں تے اوہ "بووو” ایسے. اس زمانے وچ "بووو” ناں لفظ مآؤ (والدہ) تائیں وی استعمال ہونا ایسا، تساں اس کی پنجابی نیں بےبے یا بےجی ناں متبادل آخی سکنے او۔ ہن تے گراں دیہات وچ وی یوء لفظ متروک ہونا جلناں آ، بلکل پرانیاں روائتاں تے قدراں نی طرحے۔
اس ویلے محلے یا گراں نیاں عمر والیاں کال سریاں ساریاں واستے ماء یا دادی ناں درجہ رکھنیاں ایسیاں تے انھاں نی عزت وی اووئے جیئی ہونی سی۔ میکی یاد آ جے اسکول سی مڑی اشنیاں ساہڑے ہک کلاس فیلو نیں نانی ہور کدے راہ وچ ملی گچھن تے اپنی کڑتی نے اندر لائی ہوئی بنین نی زنبیل نما جیب وچا ٹافیاں کڈھی تے اساں اٹھ دس بچیاں وچ برابر بنڈنے (تقسیم) ایسے، گویا اوہ اساں ساریاں نیں "برابر نیں” نانی ایسے۔
اماں اساں پہن پہراراں تائیں سراپا شفقت اسیاں۔ مہاڑے آرا ہر پہن پہراء تے ساہڑے تائے ہوراں نی اولاد وی اپنی اپنی جائی خود کی اماں ناں چہیتا یا چہیتی تصور سمجھنے ایسے تے اماں وی کدے کسے نیں مان وچ کہاٹا ناء اچھن دتا۔ سچی گل یاء ای جے اساں کی تے ماؤ نیں حصے ناں پیار وی دادی ہوراں کولا لبھا کیاں جے اس زمانے وچ کہر نے کم کاج نیں نال منج، گاں، بکری وغیرہ نیلے ناں انتظام کرنا تے ناڑے یا باولی اپرا پانی پہری تے آننے سی علاوہ گراں نی غمی خوشی وچ شریک ہونے سی بعد ہک ماؤ تائیں مشکل نال اتنا ویلا بچنا سا جے وہاء ساریاں سی لوہکے نکے اپر تھوڑی جیئی توجہ دے یا دو چار کہنٹے نی نیندر پوری کری کہنے۔
اس واستے اساں بچیاں نے ناز نخرے چانے ناں فریضہ اماں اپنے ذمے کہندا وہاء سا، جس کی اوہ اس کمال نال نبھانے سے جے خود انھاں تائیں نماز تے کج کہنٹے نی نیندر ناں ویلا یے بچنا سا۔۔ نماز واستے انھاں شمسی تے قمری توانائی ناں خودکار نظام بنایا وہاء سا ۔ دینہہ (سورج) تے چن چہڑے (بادل) نیں اوہلیا (اوٹ سے) وی انھاں کی نماز نے ویلے ٹھیک ٹھیک دسی شوڑنے ایسے۔ تہھپ (دھوپ) کس ویلے سامنے کھلتے مکشپوری نے پہاڑ نے کس حصے تک پوہچی تے کسلے الہی (ڈھلی)۔۔ کس ویلے کیہڑا کم کرنا آ، اسے منیاد اپر انھاں ناں غیر اعلانیہ ٹائم ٹیبل خودکار انداز وچ کم کرنا ایسا۔ انھاں کی کہڑی نی ٹک ٹک نال کیں کوئی واسطہ نیسا۔ ہن خیال اشناں جے اماں ساہڑے تے سارے کم کری کہننے ایسے، اساں کولا تے کدے ویلا (وقت) تک انھاں ناء پچھیا تے اس انھاں نے کس کم آئے آں۔
اماں ہور کہر نیں کہلے بزرگ ایسے جنھاں ناں کسے پوترے پوتری اپر کوئی رعب نیسا،بلکن انھاں نی چہول اساں ساریاں واستے پناہ گاہ ایسی۔ اساں اپنی والدہ نال کدے اتنے بے تکلف نیاں ہوئے جسرے نی بے تکلفی اماں نال ایسی۔ اوہ غریبی نے مارے کہر نے بیہڑے (آنگن) وچ ہک چھاوے آلے بوٹے آرا ایسے۔ ہک پاکیزہ تے سخی روح جس نی چہول (دامن) ساہڑے آستے دعائیں نال پہریا رہنا سا تے اوہ چہولی پہری پہری دعائیں دینے نے پہانے لوڑنی رہنی ایسی،۔۔ اتنی زیادے جے اساں کدے کدے "اکی” گشنے سیاں.. کوئی بچہ ذرا جیئا بیمار ہونا سا یا چنگے کپڑے لائی تیار ہونا سا تے چکھ سی بچانے والے ٹوٹکے شروع کری کہننے سے۔۔ انج وی ساہڑے اماں چکھ دور کرنے نیں سپیشلسٹ ایسے۔ کسے نی منج نیہی ملنی (دودھ نہیں دے رہی)۔۔ کسے نی بکری ناں تھن چکھ نی وجہ نال پھٹی گا یا کسے نی گائیں اپر چکھ ناں شبہ آ تے مالکن یا مالک نسنے نسنے اشنے سے تے اماں کولا کہاء پھوکائی کھڑنے سے۔ اس ناں اثر اتنا جلدی ہونا سا جے میں کدے کسے مریض تائیں دووئی واری اشنیاں نیسا دکھیا ۔اسے طرحے کوئی بچہ یا بچی بیمار ہوئی کھانا پینا چھوڑ دے تے چکھ ( نظر) دور کرنے واستے ماوریں اپنے بچے چائی ہک دم اماں کول نسنیاں اشنیاں سیاں۔ تے مریض کہنٹیاں بلکن بعض دفعہ تے منٹاں وچ ٹھیک ہوئی گشناں سا۔ البتہ اساں کہر نے بچے اماں نی اس "کرامت” کی کج زیادے مننے والے نسیاں۔ یعنی "کہر نی ککڑ دال برابر” والا معاملہ ایسا۔
ساہڑا گراں مری نیں گراں دیول نال جڑیا وہاء تے ایوبیہ نی چوٹی سی تھلے پہاڑ نے دامن وچ واقع آ، جتھیں اج سی ویہہ پنجی ورس پہلیاں توڑی شدید برف پینی رہی۔ انج وی مکش پوری اپر برف باری ناں سلسلہ جاری رہنا تے سال نے کم سی کم چار مہینے تے شدید سردی پینی. ایہے جیئے موسم وچ ساہڑا زیادے تر ویلا سرنی وچ گزرنا ایسا. پہاڑی علاقیاں وچ اس زمانے وچ ہر کہر نے نال ہک سرنی ہونی ایسی پر تیز رفتار ترقی نے نتیجے وچ ہن کچے کہراں نی جائی کنکریٹ تے رنگ پرنگیاں ٹیناں چائی کہندی تے سرنی وی ماضی نی بلنے ہسنے سہواغے ناں حصہ بننی جلنی۔
خیر گل ہونی پیئی سی سیالے نیاں راتیں نی ۔۔سوچو نقطہ انجماد کی چھونیں درجہ حرارت وچ نماشاں سی بعد گرم کمرے چا اٹھی تے اپر والے کمرے وچ ٹھڈے بسترے اپر گشناں وی بہوں اوخا کم ہونا ایسا .پر جسلے اساں پہن پہراء چلہے نے چوفیر بیئی خوش گپیاں وچ مصروف ہونے اسیاں تے اماں اس دوران اساں پہراراں نیاں کھٹاں جوڑی تے انھاں اپر بسترے لائی کج چر اتھیں بیہی یا لیٹی ذکر اذکار کرنے رہنے ایسے تے اسرے بستر تھوڑے بہوں گرم ہوئی گشنے سے تے اوہ فر اساں کی سینیں (سونے) تائیں بلائی کہننے سے۔ انھاں نی کوشش ہونی سی جے اس معاملے وچ وی کسے نی حق تلفی نانہہ ویہہ تے باری باری اے سہی، ساریاں کی یاء سہولت میسر اچھی گچھے۔
جس ویلے ابا کہر نیسے ہونے، اساں پہراء آزادی نیں مزے اڈارنے سیاں۔ سکول سی واپسی اپر برانڈے نی دری وچ بستے ہک دووئے اپر ٹیہرے (ڈھیر) آرا رچی، رٹی (کھانا) کھائی سدھے کرکٹ کھیڑنے تائیں دوڑ لائی شوڑنے اسیاں۔ اماں ہور اساں ساریاں نیں بستے سیاننے سے اس واستے واپسی اپر ہر ہک ناں بستہ ترتیب نال "کلی” نال لگا وہاء لبھناں سا۔
اس زمانے وچ ڈائجسٹ تفریح یا معلومات ناں واحد ذریعہ ہونا سا پر مآء پے بچیاں کی "فرضی بے راہ روی” سی بچانے تائیں اس کی شجر ممنوعہ قرار دیئی رکھیا سا۔ اس واستے اساں جسلے بسترے نی چہولی وچ ابن صفی نیاں کہانیاں، محی الدین نواب ناں "دیوتا” یا احمد اقبال نی "شکاری” پڑھنے سیاں تے اماں یوء سمجھی مڑی مڑی اساں کی پیار کرنے سے جے بچے کتنی محنت نال پڑھائی کرنے اے. اوہ کدے پانی تے کدے چاء ناں پچھنے سے تے کدے ساہڑے سر وی دبانا شروع کری شوڑنے سے ۔ صرف ایہے ناں ابا نے سامنے تے کدے کدائیں رشتہ داراں نی موجودگی وچ وی فخر نال اپنے پوتریاں نی پڑھائی تے محنت نے گیت گانے سے۔ بے چاری اماں کی کیہ پتہ سا جے اساں جیہڑی کتاب پڑھنے ہونے سیاں وہاء نصابی کتاب نیہسی بلکن وہاء ڈائجسٹ سی، جس کی پڑھنا قابل دست اندازی پولیس جرم سا۔ پر شاید یوء اماں نیاں دعائیں ناں یے اثر سا جے نصابی کتاباں وچ زیادے دلچسپی نانہہ کہننے نے باوجود امتحان وچ پوزیشن اچھی گشنی سی تے اماں کی جیہڑا اساں اپر فخر سا اس ناں مان ریہی گشناں سا۔
ساہڑے واستے اماں نی شفقت کسے دلیل یا منطق نی متھاج ہرگز نیسی، پوترے پوتریاں کہرے وچ کتنی وی تباہی نہ مچان، کوئی انھاں کی کیں وی نانہہ آخے۔ پہراراں چا کسے کی شرارت یا کسے کہاٹے اپر والدین کولا مار پینے نی نوبت اچھی گچھے (جیہڑی والدہ کولا اکثر پینی رہنی سی) تے اماں بچاؤ ناں ذریعہ بنی گشنے سے تے انھاں نیں پچھیں چھپنے نی وجہ نال مارنے والیاں نیں حم ۔
بیساخ ناں مہینہ شروع ہونا سا تے اماں دریک (یا نیم) نے پتراں ناں کوڑا پانی تیار کری تے رکھنے سے تاں جے اس گرمی نے موسم وچ دانیاں سی محفوظ رہیاں۔ ظاہر آ بہوں یے کوڑا پانی پینا اساں واستے ہک اوخا کم ہونا سا۔ اس اماں کولا جان چھڑائی نسنے سیاں پر اولاد نی ہلس جسرے انھاں نے بڈھے تے کمزور وجودے وچ بجلی پہری شوڑنی سی۔ اوہ ہک ہک کری ساریاں کی کوڑا پانی پوائی تے رہنے سے۔ آپوں انھاں کدے کدے بہوں سر درد ہونا سا جس کی اوہ "چنڈھ” آخنے سے ، تے اوہ انڈا پھینٹی پی تے چنگے پہلے ہوئی گشنے سے۔ اس تھی سویر اساں کدے اماں کی بیماری نی شکایت کرنیاں یا ڈنڈ بانیاں ناء دکھیا۔ اوہ اپنے کپڑے خود تہونے سے تے ساہڑی والدہ یا تائی اماں کی ہتھ وی نیسے لان دینے۔ آخنے واستے اوہ ایہے گل آخنے سے جے انھاں کی کسے نے تہوتے کپڑے چنگے نیہے لگنے، پر ہولے ہولے اساں کی پتہ لگا جے اماں اپنیاں نہوآں اپر پہار نیسے باہنا چاہنے ۔ اس زمانے وچ بزرگ استری وغیرہ سی بے نیاز ہونے سے، پر اماں اپنے کپڑے سرہاندو نے ہیٹھ رکھی تے راتیں اس اپر کوئی پہاری شے رکھی شوڑنے سے، اسرے انھاں نے کپڑے استری ہوئی گشنے سے۔ صفائی ستھرائی نے معاملے وچ اوہ مثالی شخصیت سے۔
ہک گل دسناں تے یاد یے ناء رہیا جے اماں اکھ نے آپریشن سی بعد نظر نی عینک تے لانے یے سے، نالے اوہ سننے وی کہٹ سے تے آخری ویلے توڑی انھاں کدے آلہ سماعت استعمال ناء کیتا، اس واستے اوہ اچا سننے سے۔ غیبت تے دور نی گل ای، اساں کدے کسے تائیں انھاں نے مونہے چا دعا سی علاوے کوئی ہور گل نہی سنی۔ کدے کسے نی طرفا دل دکھی کرنے والی کوئی گل پتہ چلنی سی تے متعلقہ فرد نے بارے وچ بس آخنے سے "اللہ اس ناں پہلا (بھلا) کرے”
جسلے ابا کم واستے شہر گشنے سے یا ہک ادھ واری ملخے سی باہر گئے تے اماں پہانے پہانے نال انھاں نے نکیاں ہونے نیاں یا نوجوانی نیاں گلاں یاد کری تے بظاہر ہسنے رہنے سے پر عینک نے پچھیں لشکنے اتھروں اصل گل دسی شوڑنے سے جیہڑے اکھیں چا نکلی تے انھاں نے مونہے نیاں چہریاں وچ جذب ہوئی گشنے سے۔ فر اوہ انگلی نال انھاں کی غیر محسوس طریقے نال صاف کری تے اسمانے وخ اشارہ کری تے آخنے سے "اوہ جانے، اس نی امانت۔ شکر اللہ تہاڑے نائیں را قربان” ایہ جملے اوہ اپنے انداز وچ تقریباً روز یے ادا کرنے سے۔ ساہڑے کن یوء سننے نے عادی ہوئی گئے سے۔
جسلے میں چھٹی گزاری مڑی گشناں سیاں تے ہر واری اماں باں (بازو) مہاڑے گلے وچ بائی تے گلیاں اکھیں نال آخنے سے "کیہ پتہ فر ایسو تے ملاقات ویہہ یا نہ ویہہ” تے میں ہر واری ہسی تے آخناں سیاں "اماں پوترے پوتریاں ناں بیاہ کرائے بغیر تے تساں کدھرے نہیو گشنے والے۔ تے اس کم واستے کم سی کم ادھی صدی چائینی کیاں جے ماشاءاللہ اساں ادھی کرکٹ ٹیم سی زیادے یاں” بہوں ساریاں ہور گلاں نی طرحے مہاڑی یاء گل وی اماں کی سمجھ نیسی اشنی پر اوہ ہسی متھے اپر پیار دیئی تے انگلیاں نال بالاں ای کنگھی کری میکی ٹورنے سے۔ میکی اماں نی کھوہری تلی تے انگلیاں ناں لمس ہن وی اسے طرحے محسوس ہونا آ۔
اس واری وی اماں حسب عادت گلے لائی ٹوریا تے نظراں سی اوہلے ہونے توڑی دکھنے رہے، پر اس واری انھاں ناں اندیشہ درست ثابت وہاء۔ یوء نوے نی دہائی ناں تری آ سال سا۔ہک تیہاڑے کراچی پیغام لبھا جے ضروری کم آ، کہر فون کرو۔ اسلے فون کرنے تائیں پی سی او گشناں پیناں سا۔ میں نسی تے ٹیلی فون بوتھ اپر پوہچی فون کیتا تے پتہ لگا جے اماں چلے گئے۔ مہاڑی آواز گلے وچ یے دبن گئی تے اتھروآں ناں سارا لون حلق وچ جمع ہوئی گا۔ اس سی بعد یاد ناء جے میں اس تیہاڑے ہور کیہہ کھاہدا، پیتا۔
اماں جوانی وچ رنڈے (بیوہ) ہوئی گئے سے پر انھاں بہوں پہادری تے خودداری نال دو بچیاں کی پالیا۔ اسلے لوک زمیں نال ڈوہنغا تعلق رکھنے سے تے مڈھلیاں ضرورتاں کھیتی باڑی نال پوریاں ہوئی گشنیاں سیاں۔ پیسہ ناپید سا۔ تے بزار گشنے نی نوبت بہوں کہٹ اشنی سی۔ اماں کولا پرانے زمانے نے قصے اس بڑی شانق نال سننے اسیاں۔ انھاں وچا ہک یوء وی سا جے انھاں نے ہک پہراء جیہڑے کراچی کاروبار کرنے سے، ہک وارا عیدی اپر گراں آئے تے اماں کی ہک روپیہ دتا نیں۔ انھاں غالباً ہک من کنکے ناں آٹا (ساہڑے علاقے وچ مکئی زیادے تے کنک کہٹ ہونی سی)، چینی، پتی، ہک دوپٹہ تے کج ہور سامان خریدیا تے فر وی دو آنے بچی گئے۔ انھاں کی سمجھ نیسی اشنی جے اوہ یاء "رقم” کسرے خرچ کرن۔ میں یاء کہانی بڑی دلچسپی تے حیرت نال اماں کولا مڑی مڑی سنناں سیاں تے ہر واری دلے وچ یوء منصوبہ بنانا سیاں جے جسلے میں کمانا شروع کرساں تے کسے عیدی اپر اماں کی پورے ہک ہزار روپے دیساں تاں جے اوہ دل پہری تے خریداری کرن۔ پر یوء منصوبہ دلے وچ یے رہی گا تے اماں بہشت نیں مکین ہوئی گئے۔