ہائر اسکینڈری اسکول بیروٹ ۔تقریب تقسیم انعامات ایک ماہرتَعَلُّم کی نظرسے
جمیل الرحمن عباسی

ہمیں جتنی محبت اپنے ہائی اسکول اور اس کے نئے و پرانے اساتذہ سے اب محسوس ہوتی ہے، دوران پڑھائی محسوس ہوتی تو انقلاب ہوتا۔ اس کہنہ سال عاشقی میں ہم نے بارہا بند اسکول کے پھیرے لگائے لیکن اب کے ہمیں اسکول کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں نہ صرف مدعو کیا گیا بلکہ اسٹیج سے خوش آمدید کہتے ہوئے ہمارا وہ ’’اسم ِ نامسمٰی ‘‘ بھی پکارا گیا جو نہ والدین نے رکھا تھا اور نہ لوگ ہمیں اس نام سے جانتے ہیں ۔ بہر حال ہم اس پر بدمزہ ہرگز نہیں ہیں ۔
ہمارا ہائی اسکول اپنے کام کے اعتبار سے پہلے ہی بڑا تھا کہ لیکن اب اپنے نام سے بھی بڑا ہو چکا ہے یعنی ’’ گورنمنٹ کیپٹن عمیر شیہد ہائر اسکینڈری اسکول بیروٹ ‘‘ ۔ خون شہیداں کے رنگ لانے تک تو صحیح تھا لیکن تقریب میں ایک مقرر صاحب کو اس نام کا انگریزی مُخَفَّف (GCUSHHS) ادا کرتے دیکھا تو بہت ترس آیا کہ موصوف کی کیفیت عین وہی تھی جو نورانی قاعدے میں "کعیعص” پڑھتے بچے کی ہوتی ہے ۔
زبان کی بات چلی تو ہم عرض کرتے ہیں کہ ہمیں انگریزی سے اس کے سوا کوئی بیر نہیں کہ یہ ہمیشہ ہمیں پاس کرنے سے زیادہ فیل کرنے میں کوشاں رہتی تھی اور جب سے ہم نے پڑھائی سے کنارا کیا یہ وجہ عداوت بھی جاتی رہی، تو انگریزی زبان سیکھنے میں ہمیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا لیکن یہ کیا کہ انگریزوں کو اتارنے کے بعد بھی انگریزی کو سر پہ چڑھا رکھا جائے ۔ جب ہم نے تقریب میں دیکھا کہ جزوی طور پر نقابت کے فرائض سر انجام دینے والے دو عزیز طلبہ میں سے ایک انگریزی میں اعلانات کرتا ہے تو ہماری ’’ انگریز دشمنی‘‘ کے کان کھڑے ہوئے لیکن دماغ نے دل کو سمجھایا کہ بچوں کی لیاقت و صلاحیت اور اساتذہ کی محنت کے اظہار کے لیے یہ’’مشقِ سخن ‘‘ ضروری ہے ۔ لیکن جب ہم نے بعض اساتذہ کو دیکھا کہ وہ اپنی اردو تقریر کے مخمل میں انگریزی جملوں کی ٹاٹ کے پیوند لگاتے جاتے ہیں تو سخت حیرت ہوئی ۔ ظاہر ہے کہ مقصودِ کلام ’ابلاغ‘ میں اس انگلش دانی کے اظہار سے سخت رکاوٹ پیش آئی ۔ یہ ہمارے معاشر ے کا عام چلن سہی لیکن ایک استادِ محترم سے اس حرکت کا صدور جو تعمیرِ افکار و افراد کے ذمہ دار اور شاگردوں کے لیے نمونہ ہیں بہرحال لائقِ تحسین نہیں ہے۔
بعض مقررین نے ہمارے اسکول کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے مختلف سرکاری ملازمتوں ، بیورو کریسی اور فورسز وغیرہ میں ادارے کے فاضلین کی موجودگی کا ذکر بطور ثبوت کیا ۔
تو سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارے اسکول کے دامن میں یہی کچھ ہے کہ اس نے ’’ پیشہ سپاہ گری و سیاست گری ‘‘ کے کچھ مزدور پیدا کر دیے اور بس !! آخر عبید اللہ علوی اور سجاد عباسی جیسے صحافی ، سید اقبال حسین شاہ صاحب ، آصف خلش صاحب اور مطیع الرحمن عباسی جیسے شاعر ، محمد آفتاب عباسی ، سید ممتاز حسین شاہ صاحب اورسعید احمد عباسی جیسے ماہرین تعلیم ، خالد محمود عباسی ، نوید احمد عباسی ، قاری آصف قادری اور مولانا طاہر عقیل جیسے مقرر و خطیب ، محمد ضیاء الحق اور نصیر عباسی جیسے شہید مجاہد ، نصیر احمد عباسی صاحب بانی پبلک لائبریری بیروٹ جیسے علم و ادب دوست بھی تو اسی ادارے نے پیدا کیے ہیں ۔ اسی ادارے نے اس ہیرے کو تراشا جسے مدثر عباسی کہتے ہیں کہ جو جامعہ الازہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب حسن ابدال کیڈٹ کالج میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔اسی ادارے نے خرم شہزاد عباسی کو پروان چڑھایا جو سویڈن سے پی ایچ ڈی کر کے وہیں ایک کمپنی میں کام کر رہے ہیں ۔
چوں کہ ہم نے ’’پی ٹی آئی ‘‘ ازل سے چھوڑ رکھی ہے لہذا بلا ججھک کہتے ہیں کہ ’’کیپٹن صاحب اور جنرل صاب ‘‘ کی تکرار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے اغماض بتاتا ہے کہ یار لوگوں کی سوئی ابھی تک سرکاری نوکری پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ اس صورت ِ حال پر تبصرے کے لیے ہمیں حضرت اکبر کے دو مصرعوں سے بہتر کچھ نہیں سوجھتا :
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا ۔۔۔
کھا ڈبل روٹی ، کلرکی کر ، خوشی سے پھول جا
ہمارے اسکول کی کامیابیوں کو دیکھنے کا ایک تناظر یہ بھی ہے کہ ہمارے ادارے سے فاضل ہونے والے طلبہ کن شعبہ ہائے زندگی اور کن کن یونی ورسٹیوں میں جا رہے ہیں ۔ ہمارا گاؤں کہ جسے ’’ بیروٹ کہتے ہیں ‘‘ ایک زرعی ملک کا باغبان علاقہ ہوا کرتا تھا ۔ اسی ادارے کے بعض فاضلین کا بیان ہے کہ ہم اَسی کی دہائی کی ’’ معاشرتی علوم ‘‘ میں یہ جملہ پڑھتے رہے ہیں کہ ’’ بیروٹ سیب کی پیداوار میں مشہور ہے ‘‘ لیکن کہاں گئے وہ سیب اور باغ ؟ تو اب اس عظمت رفتہ کی تلاش کے لیے ہمیں کسی ماہر زراعت و باغبانی کی ضرورت ہے یا نہیں اور اگر ہے تو یہ کمی پورا کرنے کے لیے ہم نے کتنے طلبہ زرعی یونی ورسٹیوں کی طرف روانہ کیے ۔عالمی ماحولیاتی بگاڑ جس کے نتیجے میں ہم آئے دن سیلاب سے دوچار رہتے ہیں ۔اس کی اصلاح بھی زراعت و ثمرات میں ہے تو ہم اور ہمارا ادارہ دھرتی کے سنوار میں کیا کچھ کر رہا ہے۔
ایک عالمی مسئلہ توانائی اور پانی کی قلت ہے جس سے ہم بھی دوچار ہیں ۔ بیروٹ کے ارد گرد بہتے قدرتی نالوں پر بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے یونٹ آسانی سے لگائے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ایسے مقامی ماہرین ناگزیر ہیں جو بیروٹ کی مٹی سے ہوں اور مٹی کے عشق میں سرشار ہو کر اس مٹی کو سونا بنانے کے لیے خود کو مٹی میں ملا دیں ۔ ان ماہرین کی تیاری میں ہم اور ہمارا ادارہ کیا کر رہا ہے۔؟ ۔یہ چند طالب علمانہ گذارشات ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہیں سونچنے جیسی!!
اس تقریب کی دوسری خاص بات ادارے کے پرنسپل جناب امتیاز احمد عباسی صاحب کی ریٹائرڈمنٹ تھی گویا یہ ایک الوداعی تقریب بھی تھی ۔ ایں جناب سے ہماری براہ راست ملاقات تو ایک ہی ہےکہ جب ہم واجد حسین عباسی صاحب کے توسط سے اپنے دوست بلال عبد القیوم کے ہمراہ ادارے میں کچھ پھلدار پودے لگانے حاضر ہوئے تھے۔ اس موقع پر ہم نے انھیں ایک متواضح شخصیت پایا ۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے ہم آپ کو اپنے گمان سے زیادہ نیک ، مخلص و ماہر خیال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی سبکدوشی کے بعد والی زندگی امن و ایمان کے ساتھ گزرے۔
جہاں تک طلبہ کی مختلف سرگرمیوں کی بات ہے تو ان میں بہت سے قابل تحسین پہلو ہیں ۔ مثلاً جس طالب علم نے سورہ الشمس کی تلاوت کی اس کی صحت تلفظ و قرات اور لہجہ کسی کہنہ مشق قاری سے کم نہ تھا۔ اسی طرح مختلف طلبہ کے ہاں شعروں کا انتخاب ، نعت و حمد کی ادائی اور تقریریں بھی بہت عمدہ تھیں ۔ خاص طور پر طلبہ کا پر اعتماد انداز اس پر شاہد ہے کہ ان پر خاص محنت کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے تمام اساتذہ تعریف و تشکر کے مستحق ہیں ۔البتہ بعض پہلو سے اصلاح کی گنجائش ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اساتذہ نے طلبہ کی پیش کردہ سرگرمیوں کا جائز ہ لے کر اصلاح کا عمل شروع کیا ہو گا ۔ بطور مثال ہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت علامہ کی نظم کے دوسرے مصرعے
خودی ہے تیغ ، فساں لا الہ الا اللہ ‘‘ کو ’خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ ‘ پڑھ کر شعر کو بے معنی کر دیا گیا۔
ایک پہلو جو اسکول تو نہیں لیکن ہمارے معاشرے کے متعلق ہے اور ہمارے خیال میں خاصا خطرناک ہے کہ بعض حضرات بغیر دعوت دیے خود سے اٹھ اٹھ کر اسٹیج پر سوار ہوتے اور خطاب کرتے پائے جاتے رہے کہ جن کا خاموش رہنا ان کے بولنے سے زیادہ اہم اور ضروری تھا۔ ان سبھی سے درگزر کیا گیا تو ہم پر امید ہیں کہ ہماری اس کاغذی زبان درازی سے بھی درگزر کیا جائے گا ۔