گیتوں بھرا ریگستان
تحریر : وسعت اللہ خان

گیتوں بھرا ریگستان
وسعت اللہ خان ۔
انیس سو اٹھانوے کی سردیوں میں کسی ایک دن نے مجھے امر کوٹ (عمر کوٹ) میں لے جا کے اتار دیا۔ تب سے ایسا بیٹھا ہوں جیسے کوئی دیوانہ کوئی پری وش کو تکتے تکتے بیٹھتا چلا جاتا ہے۔ تھر سے یہ پہلی نظر میں محبت کا معاملہ تھا۔
امرکوٹ سے چھاچرو تک پکی سڑک ۔ مٹھی سے اسلام کوٹ تک ایک کالی سی تارکول کی لکیر۔ اس کے بعد کچے راستوں کی حکمرانی۔ میں نے پہلی بار خاموشی کی سرسراتی آواز اسی تھر میں سنی ۔
دور کہیں سے کیکڑے ( دوسری عالمی جنگ کا مسافر بردار ٹرک ) کے بھونپو کی آواز ہوا کی لہروں پر سوار آتی تو معلوم ہوتا کہ خاموشی کے سمندر میں کوئی بھی آواز کیسے نغمگی کی پوشاک پہن کے آپ کے سامنے مجسم ہو جاتی ہے ۔
میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے وہ تھر دیکھا جہاں مور پاڑوں کے اندر اور باہر چو نہروں کے آس پاس بے خوف اٹھلاتے منڈلاتے پھرتے تھے۔ دور کہیں حدِ نگاہ کے آخری سرے پر سروں پہ مٹکیاں رکھے گھونگٹی عورتیں بہ شکل ِ قطار شوخ رنگوں کی وہ لافانی لکیریں جو کسی مصور نے بے ساختہ زمین پر کھینچ دی ہوں۔
اور پھر اچانک سے کوئی گنگناہٹ قریب اور قریب اور قریب آتی چلی جاتی اور اس گنگناہٹ کا مالک کوئی نوعمر گڈریا اپنی گائیوں اور بکریوں کے ساتھ کسی ٹیلے کی اوٹ سے اچانک نمودار ہو جاتا اور اجنبی کو ایسے دیکھتا جیسے کوئی گھر کے صحن میں آئے کسی مہمان کو سر تا پا تکتا ہے۔ شہری ادب آداب کی آلودگی سے پاک ایک آواز اس کے لبوں سے گر پڑتی۔ ” کدھر جا رہے ہو۔ بکری کا دودھ پی لو ”۔
موسموں کی شدت، بارشوں کی دیوانگی اور اس دیوانگی سے راتوں رات چٹختی زمین سے سر نکالنے والے رنگوں کی شوخی ، جبلی معصومیت، مورنی کی طرح رقص کناں نیلے آسمان ، کسی عیاش سخی کے ہاتھوں سے رات کے سیاہ تھال میں گرتے ستاروں کے روشن سکوں اور صحرائی وسعت سے بھی زیادہ پھیلی ہوئی صدیوں بھرے عشق کی بانہوں نے ان گیتوں کو جنم دیا جنہیں بہارو مل امرانی نے کاغذی لڑی میں پرو کے پیش کر دیا۔
ان گیتوں میں ہی تو اصل تھر بند ہے ۔ بہارو مل نے تو اپنا کام کر دکھایا۔ اب یہ ہمارے ظرف اور سمجھ کا امتحان ہے کہ جو ان گیتوں کو جتنا کھول سکے۔ انسانی جذبوں کے چشمے سے پھوٹنے والے رومان کی شدت ان گیتوں کی گہرائی میں اترے بغیر ناپنا تقریباً ناممکن ہے۔
جو اس مجموعے سے نہیں گذرے گا اپنا ہی نقصان کرے گا۔ ان گیتوں کی صحت پر بھلا کیا اثر پڑے گا۔ کبھی صحرا کے پھولوں نے بھی کسی دیکھنے والی آنکھ کے انتظار میں خود کو کھلنے سے روکا ؟