گھڑ سواری کے راز
تصویر میں جس رنگ کا گھوڑا دکھائی دے رہا ہے اس کو کمیت ( کچھ علاقوں میں کمید ) بولتے ہیں۔ اگر یہی رنگ سیاہ ہوجائے تو گھوڑا مشکا کہلاتا ہے۔ اگر یہ رنگ زرا سا ہلکا سنہری مائل ہوجائے تو ککا کمیت کہلاتا ہے۔ اگر زیادہ سنہری ہوجائے تو کلہ ہوجاتا ہے۔ بالکل سفید رنگ کا گھوڑا جس کے نکوڑے اور کچھ مزید اعضاء سے ہلکا گلابی رنگ چھلکتا ہے اسے نکرا کہتے ہیں۔
سرکشی گھوڑے کی فطرت ہے۔ یہ قابو نہیں آتا۔ سرنگوں نہیں کرتا۔ یہ سوار کے صبر اور ہمت کا امتحان لیتا ہے۔ اسے قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لگام کا وہ حصہ جو گھوڑے کے منہ میں ڈالا جاتا ہے وہ سخت لوہا ہوتا ہے جو براچھوں کو تقریبا چیرتا ہوا گھوڑے کے منہ میں رہتا ہے۔ لگام دوسری طرف سوار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ گھوڑے کی کاٹھی جسے عام مستعمل زبان میں سپاٹ بھی کہا جاتا ہے اسکی چمڑے کی بنی ہوئی آخری تنی کو سوار اپنی پوری قوت سے کستا ہے۔ جس رکاب میں سوار پاؤں ڈالتا ہے وہ بھی لوہے کی بنی ہوتی ہے اور حسب ضرورت اس رکاب کی ضرب گھوڑے کی پسلیوں میں لگائی جاتی ہے۔ پھر بعض اوقات سوار چمڑے کی ایک چھڑی بھی بھی ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اس سے گھوڑے کی پشت پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ نیزہ بازی کے دوران جو نیزہ جس کے لیے عام لفظ سانگ ہے اسے بھی گھوڑے کو ضرب لگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ زیادہ طاقتور گھوڑوں کو قابو کرنے کےلیے انکے لگام کے نیچے سے ایک اضافی رسی بھی ڈالی جاتی ہے جو اس کی گردن کیساتھ سفر کرتی ہوئی نیچے کو جاتی ہے۔
یعنی سرکش جانور کو قابو کرنے کےلیے سوار کی ہمت کیساتھ لوہے کی لگام ، خوب تنی ہوئی کاٹھی ، اور ٹھیک ٹھاک ضربیں لگانے کا بندوبست بھی ضروری ہوتا ہے۔ پنجاب کے کلچر میں نیزہ بازی کے ایونٹ کو جلسہ کہتے ہیں۔ جلسے میں سوار کا جب نمبر آتا ہے تو وہ نقطہ آغاز پر پہنچتا ہے۔ گھوڑے کو گول گول دائروں میں گھمایا جاتا ہے تاکہ وہ دوڑنے کے لیے درکار جوش اکٹھا کرلے۔ پھر جب اسکا رخ سیدھا کرکے اسے سوار چھوڑتا ہے تو وہ سرپٹ بھاگتا ہے۔سرپٹ گھوڑے کے دوڑتے ہوئے (جسے انگریزی میں گیلپ کہتے ہیں) سوار کو جو ٹاپوں کی آواز آتی ہے وہ قدرت کی چند خوبصورت اور سنسنی خیز ترین آوازوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ اس آواز میں بھی ایک طرح کانشہ ہوتا ہے۔
سوار پہلے دو چار سیکنڈز میں گھوڑے کی سمت اس کی رفتار اور اپنی حفاظت کا اندازہ لگا لیتا ہے۔پھرسواراس سانگ کو گھما کر اس پوزیشن میں لاتا ہے جبکہ ایک ہاتھ لگام پر اور دوسرا ہاتھ یوں سانگ پر گرفت بناتےہوئےسانگ کندھے پرگویا رکھ لیا جاتا ہے۔
جس کھجور کی لکڑی کے بنے ہوئے تختے کو نیزہ چبھو کر اٹھانا ہوتا ہے اسے بڑے سائز میں کلہ چھوٹے سائز میں آڑی اور مزید چھوٹے سائز میں پڑتاڑی کہتے ہیں۔ سوار اسکے قریب آتا ہے سانگ کو یوں گھما کر گھوڑے سے زرا سا جھک کر دائیں رکاب پر دباؤ بڑھا کر بائیں رکاب کو گھوڑے سے دور رکھ کر اپنا توازن بنا کر سوار نشانہ لیتا ہے اور وہ تختہ اٹھا لیتا ہے۔ لیکن گھوڑا سرکش طاقتوراور منہ زورہوتا ہے۔ گھوڑا کئی دفعہ “پاٹ “ بھی جاتا ہے۔ لیکن گھوڑا جتنا بھی سرکش ہوجائے قابو میں رکھنا ہی شہسوار کا کمال مہارت اوراصل کھیل ہے۔اینکوڈوریبورن