” گونگی محبت ” افسانہ۔۔۔۔سید مہتاب شاہ

وہ میراپڑوسی اور ھم جماعت تھا ھم دونوں ایک ھی سکول میں پڑھا کرتے تھے،ھرے بھرے لہلہاتے کھیتوں سے گزرکرسکول جانا مختیار کا روزکا معمول تھاجب کہ میں کچی سڑک کے رستے سکول جاتا،مختیار اکثروبیشترکسی نہ کسی کی مکئی کی فصل سے نہ صرف بُھٹے وغیرہ توڑکراپنے ملیشیے کے بستے میں بھر لیا کرتا تھا بلکہ فصل مالکلان کوگالیاں بھی دیا کرتا،کئی بار میں نے اسے منع بھی کیا کہ بہت بری بات ھے ایک تو تم چوری کرتے ھو،اوپرسے بے چارے فصل کے مالکان کوان کی پیٹھ پیچھے گالیاں بھی دیتے ہو،تمہیں اللہ میاں بہت گناہ دیں گے ۔

وہ میری اس بات پر قہقے مارکرہنستا،اور کہتا "ارے بیوقوف بھولے تمہیں شائد یہ نہیں معلوم کہ جب وہ اپنی فصل کو بغیربھُٹوں کے دیکھے گاتوچوری کرنے والے کوکتنی گالیاں دے گا۔ بس میں انتقامََا اُسے  ایڈوانس میں گالیاں دے دیتا ہوں تاکہ اس کی گالی سے پہلی میری گالی اس تلک پہنچ جائے۔

خیرسکول کے راستے میں جبارچاچاکی مکئی بھوننے کی بھٹی تھی جہاں مختیاراوردیگربچے سکول کے ہاف ٹائم میں مکئی کے دانے بھنوالیاکرتے تھے،اوراخروٹ توڑکرمکئی کے دانوں میں مکس کرکے ھم دونوں کھایا کرتے تھے ،جبارچاچا جب بھٹی پرنہیں ہوتے تو ان کی گونگی بیٹی پروین عرف پینو اکثرہمیں دانے بھون کردیا کرتی تھی۔

پینوبہت خوبصورت تھی ۔۔اونچی لمبی اورچِٹی گوری سی،وہ دانے جب بھٹی میں ڈالتی تھی تواپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پرانڈیلتی تھی، جودانے ہتھیلی پرآگئے وہ پینو کے اور جو کڑاھی میں گرگئے وہ ہمارے ،چونکہ پینو کے ہاتھ بہت بڑے تھے اور تقریباََ آدھے سے ذیادہ دانے اس کے حصے میں چلے جاتے تھے جس پرمختیاراکثراس سے نہ صرف ناراض رھتا بلکہ جبارچاچا سے اس کی شکایتیں بھی کرتارہتا تھا جس پرپینو کو کئی بارڈانٹ بھی پڑچکی تھی،

وہ مختیارکوکن اکھیوں سے دیکھا کرتی تھی ،لیکن اکثرموقع ملتے ھی وہ مُٹھی بھرکرمکئی کے گرم گرم پھول دانے میری جھولی میں ڈال دیا کرتی اور میرے منع کرنے کے باوجود وہ اکثرایسا کرجاتی،کبھی کبھارتو وہ جبارچاچا کی موجودگی میں بھی کبھی جھاڑولگانے کے بہانے تو کبھی اپنے ابا کو چائے پلانے کے بہانے بھٹی پرآجایاکرتی اوراپنے دوپٹے کاپلودانتوں تلے دباتے ھوئے میری جانب دیرتلک دیکھتی رھتی اورجب میری نظراس پرپڑتی تو وہ مسکراکربھاگ جاتی اور دورتلک پیچھے مُڑمُڑکرمُجھے دیکھتی رھتی۔

ایک دِن پینو دیوارکے پیچھے چُھپ کرکھڑی مجھے اشارے کررھی تھی پہلے تومیں اس کے اشارے سمجھ نہیں پایاپھرآخرمیں دھیمے قدموں سے جبارچاچا سے بچتے بچاتے اس کے پاس پہنچا تواس نے میراہاتھ پکڑ کر اس پرمہندی رکھ دی اور میری مُٹھی بندکرکےاس کے اوپرپلاسٹک کی تھیلی کس کرباندھ دی،اور اشاروں اشاروں میں کچھ اس انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ رات تک اسے کھولنا مت۔

Screenshot 20221130 112853 1 656x430 1 jpg

اسکول کے بچوں نے جب میرے ہاتھ پرپلاسٹک کی تھیلی دیکھی تو عجیب عجیب نظروں سے دیکھنے لگے ،مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے ،میں نے چوٹ لگنے کا بہانہ کردیا ،خیرایسی حالت میں گھرنہیں جاسکتا تھا میں نے راستے میں آبشارکے نیچے کھڑے ھوکرہاتھ دھولیئے لیکن مہندی اس وقت تک میراہاتھ سرخ کرچکی تھی،
گھرمیں سب نےمیرامذاق اُڑایا اور اس بات کی کھوج میں لگے رھے کہ یہ مہندی کیوں اور کیسے لگائی گئی ،میں نے اپنے دوست کا بہانہ کیا،لیکن اس کے بعد کچھ دن تک  مختیارکے ساتھ میں جب بھی بھٹی پرجاتا گونگی پینو دورسے اشارہ کرکے مجھے اپنی ہتھیلی دکھانے کی ضدکرتی جیسے ہی وہ محسوس کرتی کہ مہندی اُترچکی ھے وہ دوبارہ سے مجھے مہندی لگا کرشاپرباندھ دیتی،
یہ بات زیادہ عرصہ تک چھُپ نہ سکی ،اب میرے سکول کے ہرکلاس فیلوکو پتہ چل گیا کہ پینو میرے ساتھ محبت کرتی ہے۔

کچھ عرصےبعد میں لاہورشہرآگیا،میری فیملی بھی یہاں شفٹ ہوگی،اسکول ،کالج حتی کے یورنیورسٹی سے تعلیم کے بعد ایک سرکاری محکمے میں اچھی پوسٹ  مل گئی۔میں دوبچوں کاباپ تھا جب طویل عرصہ بعد میراگاؤں جانا ھوا،گاؤں کی پکڈنڈیوں ،لہلہاتے کھیتوں، پرانے مکانوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے بنگلے کوٹھیوں نے گاؤں کامنظر ہی بدلدیا تھا۔

میرے پاس سگریٹ ختم ہوچکی تھی اور مجھے اس دن ایک افسانہ لکھنا تھا،میں گاؤں کی دکان پرگیا سگریٹ خریدی، گاؤں کے بچوں کیلئے کچھ مٹھائی، ٹافیاں وغیرہ بھی خریدیں۔ جب پیسے دینے کیلئے پرس نکالاتونقاب والی ایک لڑکی نے  مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور مجھے چلے جانے کا اشارہ کیا،میں سب کچھ بھول چکا تھا لیکن اچانک سے مجھے خیال آیا کہ "یہ تو وہی جگہ ہے ،گزرے تھے ہم جہاں سے”

میرے مُنہ سے بے ساختہ پینو کانام نکلا جوکہیں دوردورتک لوگوں نے سن لیا۔فورآ گھر سے دوچارلوگ نکل آئے مجھے دیکھ کرپہلے توحیران پریشان ہوئے لیکن جلدی ھی انھوں نے مجھے پہچان لیا،میں نے مُڑکردیکھا تو پینو غائب تھی ،گھرکے باقی لوگ مجھ سے میری فیملی کی خیریت دریافت کرتے رھے ،پینوں کی اماں میرے لیئے لسی کا گلاس بھر کے لے آئیں،
لیکن میری نگاہیں پینو کو تلاش کررہی تھیں ،تھوڑی دیربعد پینو بھاگتی ھوئی آئی اوربغیرکسی خوف وخطر اس نے سب کے سامنے میراہاتھ پکڑاکرمہندی سے بھری اپنی مُٹھی میری ہتھیلی پررکھ دی اورپلاسٹک کاشاپر چڑھاتے ھوئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کافی دیرتک مجھے دیکھتی رھی ،
” تھوڑی ھی دیرمیں پینو کی خوبصورت آنکھوں سے آنسووں کی لڑی بہنے لگی ”
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سید مہتاب شاہ

ایک تبصرہ چھوڑ دو