گلیات سے ایبٹ آباد تک (تحریر : عبیداللہ کیہر ممتاز سفرنامہ نگار)

1988ء کااکتوبر،اوائل ِ سرما کی پہلی ژالہ باری کا منظر اور مری کے کشمیر پوائنٹ کا ماحول۔اس سال میں اکیلا ہی سیاحت کر رہا تھا اورمری میں چند روز گزارنے کے بعد آج ایبٹ آباد جا رہا تھا۔رات بھر برسنے والے اولوں کی وجہ سے پوری وادی میں خنکی اور دھندپھیلی ہوئی تھی۔ سڑک سے نیچے سبز ڈھلوانوں پر جگہ جگہ سفید پھول کھلے ہوئے تھے۔یہ در اصل ان اولوں کے ڈھیر تھے جوآپس میں جڑ کر تودوں کی شکل اختیار کر چکے تھے اور ابھی پگھلنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ میں نے کشمیر پوائنٹ پر الوداعی نظر ڈالی اور تھکے تھکے قدموں کے ساتھ واپس مال روڈ کی طرف چل دیا۔

b03acd4e 3ff7 4b68 b053 17834b7e4d8a jpg
چرچ کے پاس سیب بیچنے والا بوڑھا ابھی سے اپنا ٹوکرا لے کر آ بیٹھا تھا۔ سڑک پر اکا دکا لوگ تھے کیونکہ ابھی صبح ہی تھی۔ پھلوں کی چاٹ والے نے مجھے دیکھ کر برتن کھڑکھڑائے، مگر مجھے جلدی تھی۔ برف سے دھلی ہوئی ڈھلوان سڑک پرمحتاط قدموں سے چلتا ہوا جب میں نیچے بس اسٹینڈ تک پہنچا توبہت دیر ہو چکی تھی۔وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔مری سے ایبٹ آباد جانے والی واحد بس، جا چکی تھی۔
’’کیا مصیبت ہے!‘‘ میں جھنجھلایا ہوا اڈے سے باہر نکل آیا اور خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔سڑک پر کچھ دور ایک بیڈ فورڈبس کھڑی گھر گھرا رہی تھی۔
’’کدھر جانا ہے جی؟‘‘ مجھے تھیلا کندھے پر اٹھائے، پریشان کھڑادیکھ کر بس کا کنڈکٹرتیزی سے میری جانب لپکا۔
’’ایبٹ آباد‘‘ ۔ میں نے ایک موہوم سی امید بھرے لہجے میں کہا ۔
’’تو آؤ بیٹھو نا جی․․․․․ یہ بس ایبٹ آباد ہی جا رہی ہے!‘‘۔ کنڈکٹر کھل اٹھا۔
’’یہ․․․․․یہ ایبٹ آباد جا رہی ہے!‘‘ میں ایک پر مسرت بے یقینی سے بولا۔
’’ہاں جی بالکل! ابھی چلے گی۔بالکل تیار ہے۔بس آپ جیسے ایک دو پسنجر اور مل جائیں‘‘۔ اس نے شتابی سے میرا تھیلامجھ سے لیا اوردوڑ کر بس کی چھت پر چڑھ گیا۔

d8b56ed8 9523 4fee b32c a4710fd986ef jpg
بس میں مسافر کم تھے۔میں نے سب سے آگے ایک کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ جمایااور باہر دیکھنے لگا۔ مری کی غیر ہموار ڈھلوانوں پرایستادہ مکانات کی رنگ برنگی تکونی چھتیں اپنی اپنی جگہ پر ساکن تھیں۔ سارا سال ہزاروں لوگ یہاں آتے ہیں۔ مشینی زندگی اور شب و روز کی یکسانیت سے اکتا کر۔ ایک عارضی انقلاب کے لیے۔ کبھی مری کے سبزہ زاروں،اس کی خاموش فضا میں سکون کی خاطر، کبھی برفزاروں کے خوابناک ماحول میں ایک تنوع کی خاطر۔ اور پھر وہ سب دوبارہ واپس اپنے انہی تھکا دینے والے معمولات میں گم ہو جاتے ہیں۔راولپنڈی کی ان پہاڑی گلیات میں یوں تو کئی ہل اسٹیشن ہیں، مگر جو بات مری میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ شہرت حسن فطرت کی قاتل ہوتی ہے، مگر مری کوتوشہرت نے اور حسین بنا دیا ہے۔

1f140767 4569 4c9d bc7e 2765f0d46885 انگریزوں نے مری کو صرف ہل اسٹیشن بنایا، ہم نے اسے بیوٹی اسٹیشن بھی بنا دیا ہے۔ کچھ دیر مزید مسافروں کا انتظار کرنے کے بعدڈرائیور نے پہلا گیئر ڈالا۔بس نے ایک جھرجھری لی اورپھر آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی نشیب کی طرف چل دی۔شہر سے باہر آتے ہی پہاڑوں کے پیالوں میں گھری ہوئی اونچی اونچی ڈھلوانوں پر دور دور تک بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروندے آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ چیڑ کے گھنے درختوں نے پہاڑوں کو ایک ہموار سبز چادراوڑھا رکھی تھی۔ سڑک کے برابر میں ڈھلوانوں پرموجود مکانات کی چھتیں بس کے ٹائروں سے قریب تھیں۔بس ڈھلوان راستے پر آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی نیچے سنی بنک کے اسٹاپ تک پہنچی تو دوراہا آیا۔ ایک راستہ نیچے راولپنڈی کی طرف اور دوسرا اوپر ایوبیہ، نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کی طرف جا رہا تھا۔ہماری بس نتھیا گلی کی طرف چل دی۔

اس زمانے میں یہ سڑک اتنی تنگ ہوتی تھی کہ اوور ٹیک کرنا تو دور کی بات ، کراسنگ کے لیے بھی مخالف سمت میں آتی ہوئی گاڑیوں کو رکنا پڑتا تھا۔ دائیں اور بائیں ڈھلوانیں تھیں مگر متضاد۔ ایک طرف ہزاروں فٹ اونچی اور دوسری طرف ہزاروں فٹ گہری۔ فضا میں برف کی سرد مہک تھی۔ سڑک کے کناروں پر رات بھر گرنے والی برف لکیر کی صورت موجود تھی۔ ہزاروں فٹ گہرے نشیبوں میں چیڑ کے گھنے جنگل تھے۔ درختوں کی نوکیں تیر کی طرح سینکڑوں فٹ اوپرتک اٹھتی چلی آئی تھیں اور اس مرطوب فضا کو چیررہی تھیں۔
سڑک کی تنگی کو دیکھ کر دل دہلتا تھا اور پربتوں میں ایک اجنبی دل کو یہ تسلی دے کر بہلاتا جا رہا تھا کہ بس اگر راستے سے ذرا پھسل بھی گئی تو کوئی مسئلہ نہیں، ان درختوں کے مضبوط تنے ضرور بس کو سہارا دیں گے ۔لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی کیونکہ وہ اجنبی تھا۔میرے برابر میں جو مسافر آکر بیٹھا تھا وہ بھی یہاں اجنبی تھا ۔گرد، گرما، گدا و گورستان کے شہر ملتا ن کا ساکن یہاں دہشت سے ساکن ہو چکاتھا۔ کہاں ملتان کے میدان اور کہاں یہ کھائیاں اور چڑھائیاں۔وہ ہر ہر موڑ پر بری طرح اچھلتا تھا۔’’ پہلی مرتبہ آئے ہیں؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
’’ہاں جی ہاں جی․․․․․بالکل پہلی مرتبہ۔‘‘وہ توبہ نما لہجے میں جواب دیتاہے اور دوبارہ بس کے پہیوں کی طرف دیکھتا ہے کہ کہیں وہ سڑک سے نیچے تو نہیں اتر گئے۔اس کو خوفزدہ دیکھ کر میرا خوف کچھ کم ہوجاتا ہے۔
گلی کے نام سے ذہن میں ایک ایسے تنگ سے راستے کا تصور ابھرتا ہے جس پر دونوں طرف مکانات جھکے ہوئے ہوں، مگر کچھ گلیاں مری کی ہیں جنہیں گلیات کہا جاتا ہے اور جو گھنے جنگلات کی وسیع و عریض پہاڑی ڈھلوانوں پر مشتمل ہیں۔ گھوڑا گلی، بانسرہ گلی، دریا گلی، جھیکا گلی،سوار گلی، خیرا گلی، ڈونگا گلی، چھانگلہ گلی، نتھیا گلی․․․․․
سڑک کی بلندی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتاجا رہا تھا۔ کوئی ’’گلی‘‘ آتی تو رونق ہوجاتی، ورنہ ہر طرف ایک چپ، ایک سکوت تھا۔ یا پھر چیڑ کے گھنے جنگلوں میں چٹ چٹ کا پراسرار ساز، جو شاید جھینگروں کا کورس تھا۔ ہوا میں ٹھنڈی مہک تھی۔ دوردور تک دھندمیں مدغم ہوتا ہوا سبزہ تھا۔باڑیاں، جو شاید لفظ ’’باڑھ‘‘ سے نکلا ہے، ایک پل سے ملحق مختصر سا قصبہ ہے۔ اس پل کو عبور کرتے ہی صوبہ سرحد شروع ہو جاتا ہے۔کچھ آگے چل کر خارا گلی آتی ہے جہاں پر سڑک دو شاخوں میں بٹ رہی ہے۔ ایک نتھیا گلی، ایبٹ آباد کی طرف اور دوسری ایوبیہ کی طرف۔ بس کچھ دیر کیلئے ایوبیہ کی طرف مڑ گئی ۔ شاید ڈرائیور کو وہاں کچھ اور پسنجرملنے کی امید تھی۔ایوبیہ اپنی معلق سواری، چیئر لفٹ کی وجہ سے مقبول ہے اور چیئر لفٹ کے اس چارم کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اگر ایوبیہ میں چیئر لفٹ نہ ہوتی تو مری سے آگے کوئی بھی نہ آتا اور یوں یہاں کے پر سکون اور خاموش حسن کی بیش بہا دولت سے محروم رہ جاتا۔ چیڑ کے گھنے جنگل کی خوشبودار سرد فضا میں ہلکورے لیتی، آہنی رسوں سے معلق کرسی جب فضا میں ڈولتی آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی ہے تو ارد گرد کی وادیاں نظروں کے سامنے آ جاتی ہیں اور کوئی شے اس نظارے میں مخل نہیں ہوتی ۔یوں حسین تنہائی کی ایک ایسی دولت نصیب ہوتی ہے کہ جس کا کوئی مول نہیں۔اب تو پتریا ٹا اور مری میں بھی چیئر لفٹ لگ گئی ہیں مگر ایوبیہ کے ماحول کی بات کچھ اور ہے۔

Punjab Govenor House Murree
ایوبیہ میں چند مسافر سوار ہوئے، بس گھوم کردوبارہ خیرا گلی واپس آئی اور نتھیا گلی کی طرف چل دی۔ سڑک پر ٹریفک کا وجود صرف یہی بس تھی۔ بادلوں نے اسے اکیلا پا کر موقع غنیمت جانا اور نیچے آ کر چاروں طرف سے گھیر لیا۔ دودھیا دھند تیرتی ہوئی اندر آگئی اور مسافر ایک افسانوی فضا میں کھو گئے۔ مگر جلد ہی اس ماحول میں تبدیلی آ گئی اور یہ تبدیلی لانے والے وہ اولے تھے جو بس کی چھت پر ٹن ٹنا ٹن کا آرکسٹرا بجا رہے تھے۔ مٹر کے دانوں کے برابر اولے سفید چادر کی طرح سڑک پر پھیلنے لگے اور بس کے ٹائروں کے نیچے آکر، چرمرا کر، نوزائیدگی کی موت پر احتجاج کرنے لگے۔کچھ دیر یہ آرکسٹرا بجتا رہا ،پھربس آگے نکل آئی اور بادل پیچھے رہ گئے، البتہ ہر طرف گرے ہوئے اولوں کا ڈھیرکچھ دیر قبل کا افسانوی ماحول یاد دلاتا رہا ۔ دھوپ نکلی تو برف کے یہ ڈھیر بھی پگھل کر پانی بننے لگے۔ اجنبی سیاح یہ سارا چکر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
گھنے جنگل کا فسوں ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ یہاں بندروں کی افراط تھی جو کبھی کبھی سڑک پر سے جنگل کی طرف فرار ہوتے نظر آ جاتے تھے۔ سنا ہے کہ یہاں ریچھ اور چیتے بھی ہوتے ہیں جو کبھی کبھی آبادیوں میں بھی گھس آتے ہیں اور سڑک پر بھی ٹہل لگا جاتے ہیں،مگر آج شاید ان کا موڈ نہیں تھا۔ سڑک کے پیچ و خم سے مجبور ہو کر بس اتنے موڑ لے رہی تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے کوئی موٹر سائیکل سوار ترنگ میں آ کر زگ زیگ چلنے لگا ہو۔برف کے ڈھیروں سے ڈھکی مکانات کی تکو نی چھتیں سڑک تک آ گئی تھیں۔ دھوپ سے برف پگھلنے کے باعث ان سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا۔ میری سیٹ ڈرائیورکے برابر میں تھی اور وہ بار بار خوش دلی سے میری طرف دیکھتا تھا۔’’آپ کہاں سے آئے ہیں جی؟‘‘ اسٹیرنگ کو مستقل حرکت میں رکھتے ہوئے اور نظریں سامنے جمائے،ڈرائیور نے مجھ سے دریافت کیا۔
’’کراچی سے۔‘‘ میں بولا۔
’’اچھاجی!‘‘ ڈرائیور موڈ میں آگیا۔ ’’میں نے کراچی میں بھی ڈرائیونگ کی ہے۔‘‘اس نے فخرسے کہا۔ ’’ڈرائیونگ کا اصل مزہ تو جی کراچی میں ہی ہے۔ کھلی کھلی سڑکیں اور پلین روڈ۔خاص طور پر شارع فیصل کی تو کیا بات ہے جی۔ سارا راستہ سیدھا سیدھا۔ جتنا دل آئے دوڑاؤ۔ ہم مری ایبٹ آباد کے ڈرائیورتو جی اُدھر تو آنکھ بند کرکے بھی ڈرائیونگ کر سکتے ہیں۔‘‘وہ ترنگ میں آنے لگا مگر میں زیادہ نہ بولا۔ گفتگو سے اس کی ڈرائیونگ میں خلل نہ پڑتا تو میں بھی ترنگ میں آ جاتا۔

28e6119b 1898 4f0a be36 3cc20dcb9832 jpg
شام نے اپنے پر پھیلانے شروع کردیے تھے۔ سورج کسی پہاڑ کی اوٹ میں جا چکا تھا۔ جنگل میں اندھیرا چھانے لگا۔ برابر میں بیٹھا ملتانی بھائی بھی شایدراستے کی خطر ناکی کا عادی ہو چکا تھا،اس لئے بے فکری سے اونگھ رہا تھا۔اندھیرا ہونے کی وجہ سے ڈرائیور بھی چوکنا ہو کر بس چلارہا تھا۔ میں نتھیا گلی کے بعد سے باہر ہی دیکھتاآ رہا تھا۔ اندھیرے نے اس ٹیمپو کو توڑا تو مجھ پر بھی غنودگی طاری ہوگئی۔پتہ نہیں کتنی دیر اونگھتا جاگتا رہا۔کسی وقت ایک لمحے کے لیے غنودگی سے نکلا ہوں گا کہ سامنے دور اندھیرے میں سینکڑوں روشنیاں ابھرتی نظر آئیں۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ہم ایبٹ آباد کے قریب پہنچ رہے تھے۔ پہاڑوں کے اندھیرے کا خوف تو شہر کی میدانی قربت سے زائل ہو نے لگا،لیکن ایک سیاح کے لیے کسی نئے شہر میں رات کے وقت پہنچنا خاصی پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔
’’استادجی! ادھر بس اسٹینڈ کے پاس مناسب کرائے والے ہوٹل تو ہوں گے؟‘‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’’او جی آپ فکر ہی نہ کریں، میں خود آپ کو ہوٹل تک پہنچاؤں گا۔ آپ ہمارے کراچی کے مہمان ہیں۔بس پہلے باقی مسافروں کو اڈے پراتاردوں۔‘‘ ڈرائیور خوش اخلاقی سے بولا،اور پھر واقعی اس نے یہی کیا۔ مسافروں کواڈے پر اتار کر اس نے بس دوبارہ شہر کی طرف موڑدی۔’’یہ جو سامنے بلڈنگ ہے نا جی! یہ ساربان ہوٹل ہے مگریہ مہنگا ہے․․․․․ اور یہ زربات ہوٹل ہے، مگر یہ بھی ویسا ہی ہے۔ میں آپ کو جناح روڈ لے چلتا ہوں۔ وہاں آپ کوسستا ہوٹل مل جائے گا۔‘‘
وہ چند موڑ لے کر جناح روڈ تک پہنچااور وہاں کوہسار ہوٹل جیسی کم خرچ اور مناسب رہائش گاہ مل گئی۔ میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا۔
’’کوئی بات نہیں جی! آخر کو آپ ہمارے مہمان ہیں۔‘‘ اس نے بس اسٹارٹ کی اور ہاتھ ہلاتا ہوا سینما والی سڑک پر غائب ہو گیا ۔ (عبیداللہ کیہر)

 

From Galiyat to Abbottabad ,گلیات سے ایبٹ آباد تک 
ایک تبصرہ چھوڑ دو