کیا ہم واقعی استاد ہیں؟
کیا ہم واقعی استاد ہیں؟
انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا، وطن عزیز سے محبت اور مخلوق خدا کی خدمت ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنی پہچان اور معرفت کے لیے دنیا میں انبیاء کرام علیہم السلام کا پاکیزہ سلسلہ شروع کیا ۔ انبیاء علیہم السلام نے ہر دور کے انسانوں کو متفرق خداؤں کی پوجا کو چھوڑنے اور خدائے یکتا کی توحید و عبادت کی طرف بلایا، انسانیت کی خدمت کا درس دیا اور آپس میں بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی طرف راغب کیا۔
نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور آپ علیہ السلام کے بعد یہ سلسلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور تبع تابعین نے بخوبی جاری رکھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً یہ سلسلہ بزرگان دین اور اکابرین امت چلاتے رہے۔
انبیاء علیہم السلام نے ایک استاد کی حیثیت سے لوگوں کو ناصرف دین کی دعوت دی بلکہ اپنے کردار و افعال سے نمونہ بھی پیش کیا۔ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
"انما بعثت معلما "
بے شک مجھے معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عالی شان فرمان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنے آپ کو استاد قرار دیا حالانکہ آپ کے تعارف کی دیگر بے شمار وجوہات موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو استاد قرار دینا استاد کے منصب و مرتبہ کو بخوبی بیان کرتا ہے۔
استاد کی نسبت براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اسی نسبت کی وجہ سے اساتذہ کے فضائل بھی بے شمار ہیں۔ ان فضائل و مناقب کے پیرائے میں اگر استاد کو دیکھا جائے تو استاد کی ذمہ داریوں کا حلقہ بھی بہت وسیع دکھائی دیتا ہے ۔ آپ علیہ الصلٰوۃ و السلام کی حیات طیبہ کو اگر پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ استاد کا کردار محض باتوں اور قول تک محدود نہیں بلکہ استاد اپنے قول کے ساتھ ساتھ مثالی کردار کی عملی تصویر ہوا کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا استاد خود کو معلم اور استاد کہلوانے میں بہت فخر تو محسوس کرتا ہے مگر معلم اعظم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو بحیثیتِ معلم سرے سے نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل پیرا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و وسلم جہاں اپنی زبان مبارک سے بات ارشاد فرماتے تھے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے اس کام کو ناصرف خود عملی طور پر کرکے دکھاتے بلکہ دوبارہ وہ کام صحابہ سے کروا کر مہر تصدیق بھی ثبت فرماتے تھے۔ لمحہ با لمحہ تربیت، قدم قدم پر رہنمائی اور مثالی کردار کی تعمیر آپ علیہ السلام کی زندگی میں نمایاں تھے، جو کہ ہر استاد کے لیے مشعل راہ ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے اکثر استاد صرف اور صرف گفتار کے غازی ہیں اور عمل، کردار سازی، تربیت اور شخصیت سازی سے دور دور تک کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ ہمارے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بنیادی مقصد تربیت، کردار سازی اور افراد سازی تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور کردار سازی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے صحابہ کرام پر مبنی ایسی بہترین افرادی قوت تیار کی جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانانِ عالم کی رہنمائی کی اور مثالی کردار پیش کیا۔
استاد کا منصب جو سب سے اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل تھا، بدقسمتی سے اب یہ معزز منصب محض وقت گزاری اور کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اکثر اداروں کے سربراہان اور اساتذہ تعلیم کے بنیادی مقاصد سے کوسوں دور ہیں۔
روایتی اور فرسودہ نظام تعلیم کے ساتھ پروان چڑھنے والے روایتی اساتذہ نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔
نمبروں کی دوڑ میں الجھے اساتذہ اور اداروں کے سربراہان نے بچوں کو محض ریس کا ایک گھوڑا بنا رکھا ہے۔ اکثر و بیشتر اساتذہ کو نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ ہی بچوں کے مستقبل کے لیے کوئی عملی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ کم علم، کم عمر، غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار اساتذہ نے تو معاشرے کو تباہ کر ڈالا ہے۔ جس کے براہِ راست قصور وار اداروں کے سربراہان ہیں، جو کم تنخواہ کو بچوں کی اعلی تعلیم و تربیت پر ترجیح دیتے ہیں۔
آج ترقی یافتہ دنیا تعلیم و تربیت کے نت نئے اصولوں کے مطابق اپنی نئی نسل کو پروان چڑھا رہی ہے جب کہ ہمارے ملک کے ادارے اور اساتذہ تعلیم کی مقصدیت کا تعین کرنے میں ہی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے رجحانات اور میلانات کا کھوج لگا کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ پر اساتذہ کرام بھرپور توجہ دیں۔
بہت سے اساتذہ کی بددیانتی نے طلبہ کو رٹہ سسٹم کی طرف دھکیل کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ ڈالا ہے بلکہ ان سے ان کا روشن مستقبل ہی چھین لیا ہے۔ نقل مافیا کی بڑی تعداد نام نہاد اساتذہ پر ہی مشتمل ہے، جو (کچھ سکول سربراہان کی سربراہی میں) حرام کے چند ٹکڑوں کے عوض محنتی اور قابل طلبہ کی حق تلفی کرتے ہیں۔
بچوں میں اخلاقی برائیوں کے پروان چڑھنے کی بڑی وجہ وہ نام نہاد استاد ہی ہیں جنہوں نے تعلیم کو محض کتاب رٹوانے کا نام سمجھ لیا اور بچوں کی معاشرتی برائیوں پر پردہ ڈالا۔ تعلیمی اداروں کو فقط کمائی کا ذریعہ سمجھنے والے اداروں کے سربراہان نے بچے کو صرف اور صرف فیس وصولی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد اپنے منصب کو پہچانیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا وہی معیار مقرر کریں جو ہمارے آقا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دے کر گئے تھے۔
خدارا ! کتاب، نمبر اور رٹہ کی دوڑ سے اب باہر نکلیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت ، تخلیقی صلاحیتوں، اخلاقی اقدار، کردار سازی ، تعمیر شخصیت اور کنسپٹ بیسڈ ایجوکیشن پر کام کریں۔ بچوں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی پر عملی توجہ دیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر بلکہ ہر قدم پر تربیت کا معیار مقرر کریں ۔ بچوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بنیں۔ جو کچھ پڑھائیں اس کی کی گہرائی میں جاکر بچوں کو سمجھائیں بھی۔
اپنے اندر ایک ریسرچر کی خوبی لائیں، اپنے آپ کو بچوں کے لیے ایک ایکٹر بنا کر پیش کریں اور اس انداز میں پڑھائیں کہ ہر کردار ادا کرنا جانتے ہوں۔ سبق ایسے پڑھائیں کہ بچے کو ہر لفظ ازبر ہوجائے۔
بچوں کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ لائف سکلز سکھانے کا سلسلہ شروع کریں، اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی پڑھائی ہوئی کتاب تو انہیں کچھ عرصے بعد بھول جائے گی مگر آپ کی سکھائی ہوئی مہارتیں زندگی کی آخری سانس تک انہیں کام آئیں گی۔ ہفتہ وار بچوں کو ایک نئی مہارت عملی طور پر سکھائیں اور خود اس کا عملی نمونہ بن جائیں۔
خدارا! اپنے منصب کے ساتھ وفا کریں ، اپنے حلق میں جانے والے ہر لقمے کو حلال کرکے کھائیں اور اپنے پیاروں کا مسقبل بھی محفوظ بنائیں ۔یقین کریں آج اگر ہم استاد بدل جائیں اور اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی، تربیت اور تعمیر شخصیت کا بیڑا اٹھا لیں تو ہم کل کے پاکستان کو کرپشن سے پاک، باکردار، باصلاحیت، نئی نسل دے کر جائیں گے جو پاکستان کو صحیح معنوں میں ترقی اور امن کا گہوارہ بنائے گی۔
اگر ہم خود کو استاد مانتے ہیں تو آئیے مل کر سوچتے ہیں کہ :
ہماری وجہ سے کتنے بچوں کی کردار سازی ہوئی ؟
ہماری وجہ سے کتنے بچے ماں باپ کے فرماں بردار بنے ؟
ہماری وجہ سے کتنے بچے گناہوں سے بھرپور زندگی چھوڑ کر راہ راست پر آئے ؟
ہماری وجہ سے کتنے بچوں کی عملی زندگی بدلی ؟
ہماری وجہ سے کتنے بچے پُرامن، باکردار اور محب وطن شہری بنے ؟
ہماری وجہ سے کتنے بچوں کے علم و عمل میں تبدیلی آئی ؟
اگر ہم ابھی تک اپنے طلبہ میں یہ تبدیلیاں نہیں لا سکے تو مجھے اور آپ کو اپنے گریبان میں جھانک کر خود سے ایک مرتبہ یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ :
کیا ہم واقعی استاد ہیں ؟
راحیل انار عباسی
پرنسپل، بھوربن گرامر سکول سسٹم ، بھوربن (مری)