کیا طالبان چترال پر قبضہ کر سکتے ہیں؟ افواہ سازی کی حقیقت کیا ہے؟

خیبر پختون خواہ کے ضلع چترال سے ملحقہ افغان سرحد سے گزشتہ دنوں دہشت گردوں کے حملے کے بعد اب چترال ایک بار پھر میڈیا کے فوکس میں آ گیا ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر چترال کے حوالے سے خبروں اور افواہوں کا ایک سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

واضح رہے کہ چھ ستمبر کو چترال کی پاک افغان سرحد سے دہشت گردوں کے حملے میں چار فوجی جوان شہید ہو گئے تھے جبکہ جوابی کاروائی میں 12 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔اگلے ایک دو روز تک سرحدی علاقے میں صورت حال خاصی کشیدہ رہی۔دہشت گردوں کے اس حملے میں پاک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جو آبادی سے کئی میل دور واقع ہیں۔اس واقعے پر افغانستان سے دفتر خارجہ نے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرایا اور افغان نمائندے کو طلب کر کے تنبیہ کی گئی کہ طالبان حکومت دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکیں۔

28403a07 10bf 4fd2 bf86 951568a8742f jpg دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے چترال اسکاؤٹس کے جوان

واضح رہے کہ چترال اور دیر سے ملحقہ افغان صوبوں نورستان اور کنڑ میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات ملنے پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز پہلے ہی الرٹ تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے حملے کو بروقت کاروائی کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا اور اس کے بعد حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے گئے۔
دوسری طرف اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر افواہوں کا ایک سیلاب اگیا اور ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ جیسے شدت پسند چترال اور کیلاش کے اس پرامن خطے پر قبضے کا منصوبہ بنا رہے ہیں یا کسی حد تک اس پر عمل بھی کر چکے ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی تمام اطلاعات یا افواہیں چترال کی آبادی ، جغرافیہ اور عوامی رجحان سے متعلق کم علمی اور ناقص معلومات پر مبنی ہیں۔

d4b80724 1103 41e6 acca 26d2c5d0d1f9 jpgچترال اسکاؤٹس کا زخمی شیردل جوان

"کوہسار نیوز” نے اس حوالے سے چترال سے تعلق رکھنے والے اردو نیوز ویب سائٹ سے منسلک  معروف صحافی اسرار احمد سے گفتگو کی تو انہوں نے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ۔

سوشل میڈیا پر ذیر گردش ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

اس حوالے سے سوشل میڈیا میں فائرنگ کی جو ویڈیو چل رہی ہے، وہ پرانی اور گلگت کی ہے جس کا چترال سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ چترال میں گذشتہ دنوں جو حملہ ہوا ہے وہ بارڈر ایریا میں فوجی چیک  پوسٹوں پر ہوا ، آپ یوں سمجھ لیں کہ بارڈر پہ جو آخری گاؤں ہے، اس سے بھی کوئی آٹھ دس گھنٹے پیدل کے فاصلے پر یہ ہوا۔۔یعنی گاؤں میں بھی لوگوں کو آواز نہیں آئی کہ فائرنگ ہو رہی ہے یا نہیں ۔  یہ تو بالکل بارڈر کی اسکاؤٹس چیک پوسٹ تھی جہاں حملہ ہوا ، جس میں چار اہلکار شہید اور سات آٹھ زخمی ہیں ،12 کے قریب دہشت گرد مارے گئے۔باقی تو حالات مکمل کنٹرول میں ہیں، شہر میں سب کچھ کھلا ہوا ہے، بارڈر کے قریب گاؤں  بھی بھی کھلے ہوئے ہیں۔ راستے میں بھی ایسا کوئی ایشو نہیں ہے ۔

1f8d4e1e 85b0 475e 914a 40145e8b6cfd jpg

 قبضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر سوشل میڈیا پر افواہ سازی کیوں؟

اسرار احمد نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر بلاوجہ "ہوا” بنایا جا رہا ہے، کچھ ہمارے صحافیوں کو بھی وہاں کے حالات کا اور بارڈر کا اچھی طرح سے پتہ نہیں ہے ،ایک سینئر صحافی نے کہہ دیا کہ  ٹی ٹی پی قبضے کی کوشش کر رہی ہے، اور سب نے وہی بات پکڑ لی۔ بھائی ٹی ٹی پی  کیسے کر سکتی ہے اتنے بڑے ایریا میں؟ جہاں اسے کسی قسم کی سپورٹ حاصل نہیں۔ چترال ماضی میں  کے پی کارقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع تھا، جب تقسیم نہیں ہوا تھا اور وہ ٹیرین پر مشتمل ہے۔  بالکل سنگلاخ چٹیل پہاڑ ہیں، وہاں آپ حملے کے بعد قبضے کیلئے  رک نہیں سکتے،  سپلائی اور کھانے پینے کی چیزیں آپ کو نہیں پہنچ سکتیں، لوکل آبادی میں  پشتون  ایک بھی نہیں ہے اور کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں ہے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ ہو،تو انہیں نہ شیلٹر مل سکتی ہے نہ  کھانا پینا مل سکتاہے  نہ کوئی اور مدد ۔تو وہاں قبضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

5256345e 2125 4f9f 8bbc 072f93ab9bb1 jpgسینئر صحافی اسرار احمد

 

سینئر تجزیہ کار بھی بنیادی حقائق سے لاعلم

اسرار احمد کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے مین سٹریم میڈیا میں بھی  عسکریت پسندی کے حوالے سے جو ماہر تجزیہ کار سمجھے جاتے ہیں، ان کا معاملہ بھی زیادہ مختلف نہیں، اس کا ایک سبب یہ ہے کہ چترال میں کبھی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا معاملہ رہا بھی  نہیں ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کو چترال کی  جیوگرافی سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ اگر ان میں سے کوئی چترال گیا بھی ہے وہ سٹی میں گیا ہے یا دوسرے سیاحتی مقامات پر گیا ہے، لیکن باڈر ایریاز کا ان کو نہیں پتہ کہ بارڈر ایریا کتنا اور کس نوعیت کا ہے۔

69f55af8 7173 49fd 8f30 c211f732d139

اسرار احمد کا کہنا تھا کہ وہ سنگلاخ  پہاڑ ہیں ،جنہیں کراس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ دو چار جگہ سے کراسنگ ممکن ہےمگر وہاں بھی آبادی نہیں ہے اور دور دور تک جو گاؤں بھی ہیں، وہاں  کی آبادی بھی اتنی گنجان نہیں ہے کہ کوئی باہر سے آ کروہاں چھپ سکے۔ پھرافواہوں کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تجزیہ کار اور صحافی ٹی ٹی پی کے دعووں پر انحصار کر لیتے ہیں تو ظاہر ہے یہ لوگ دعوے تو لمبے چوڑے کرتے ہیں جن کا اکثر حقائق سے تعلق نہیں ہوتا۔

اسرار احمد کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات خود ٹی ٹی پی بھی جانتی ہے کہ چترال جیسے علاقے پر قبضہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تاہم حالیہ حملے کا بنیادی مقصد عالمی میڈیا کی خبروں میں آنا تھا جس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی مل گئی اور سوشل میڈیا پر ناقص معلومات رکھنے والے افراد ایک طرح سے ان کے معاون ثابت ہوئے۔ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے حملے کے لیے پاکستان کے یوم دفاع کا انتخاب بھی بڑی خبر بنانے کے لیے ہی کیا تھا۔

pakistan ttp reach ceasefire agreement amid fresh talks in afghanistan 1652884097 7412

دوحہ معاہدہ امریکا سے کیا،پاکستان ٹی ٹی پی کیخلاف ثبوت دے، افغان حکومت
دوحہ معاہدہ امریکا سے کیا،پاکستان ٹی ٹی پی کیخلاف ثبوت دے، افغان حکومت

سینیئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ حملے سے ایک چیز پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کھل کر استعمال کر رہی ہے بلکہ طالبان حکومت کی جانب سے اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر آنکھیں بند رکھنا بھی ثابت ہو گیا ہے جسے سرپرستی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
کیونکہ انہیں ان حملوں کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
جس طرح چترال حملہ نورستان کی سرحد سے کیا گیا ہے اس حوالے سے سرحد پر مشکوک سرگرمیاں کافی دنوں سے دیکھی جا رہی تھیں اور افغان حکام کو آگاہ بھی کر دیا گیا تھا۔اس کے باوجود حملے کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنا یہ بات واضح کرتا ہے کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات یا خدشات کو اہمیت نہیں دے رہے اور اگر زبانی کلامی اہمیت دے بھی رہے ہیں تو عملی طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں۔

Can the Taliban capture Chitral? What is the truth behind rumours? کیا طالبان چترال پر قبضہ کر سکتے ہیں؟
ایک تبصرہ چھوڑ دو