کیا اسلامی معاشی نظام کا عملی نفاذ ممکن ہے؟
تحریر : راشد عباسی
کیا اسلامی معاشی نظام کا عملی نفاذ ممکن ہے؟
دنیا پر اِس وقت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی فرمانروائی ہے۔ ایک معاشی نظام کے طور پر سرمایہ داری کی بنیاد سود پر ہے۔ اِس نظام کا بنیادی مقصد سرمایہ دار کے سرمائے کا تحفظ اور اس کے منافع کو یقینی بنانا ہے۔ اِس نظام میں طلب اور رسد کی قوتوں کو قیمتیں کنٹرول کرنے کا ٹول مانا جاتا ہے۔
ماہرینِ معاشیات اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی معاشرہ خوشحالی کے اوج پر تب پہنچتا ہے جب شرحِ سود صفر ہو۔
اسلامی معاشی نظام میں سود حرام ہے۔ یعنی ماہرینِ معاشیات کو قائل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اسلام دنیا کو خوشحالی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ معاشیات میں صرف ایک قانون قانون تقلیل افادہ مختتم پیش کیا گیا ہے۔ اس اصول کے مطابق اگر دولت کو برابر اکائیوں میں تقسیم کیا جائے تو اس اکائی کا افادہ سب سے زیادہ ہو گا جسے کسی حاجت پر استعمال کیا جائے۔ جب مزید اکائیاں استعمال کی جائیں گی تو افادے میں بہ تدریج کمی آتی جائے گی اور مسلسل استعمال سے نہ صرف صفر افادہ بلکہ منفی افادہ بھی حاصل ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک آدمی بہ وجہ تشنگی قریب المرگ ہے۔ جب اسے پانی کا پہلا گلاس ملے گا تو اس کے پینے سے اس کی جان بچنے کا سامان ہو گا۔ پانی کیونکہ اس وقت اس کی سب سے ضروری حاجت ہو گا، اس لیے پانی کے پہلے گلاس کا افادہ سب سے زیادہ ہو گا۔
دوسرے گلاس کی شاید اسے اس لیے طلب ہو کہ اس کے جسم میں مطلوب پانی کی مقدار کم ہے، لیکن اب پیاس کی شدت اس درجے پر نہیں ہے۔ لہذا اس گلاس کا افادہ پہلے گلاس کے افادے کی بہ نسبت کم ہو گا۔ اسی طرح تیسرے گلاس کا افادہ مزید کم ہو جائے کیونکہ شاید پیاسا شخص اب اس کی حاجت ہی نہ رکھتا ہو۔ اس صورت میں صفر افادہ حاصل ہو گا۔ لیکن اگر طلب نہ ہونے کے باوجود چوتھا گلاس بھی پیاس سے متاثرہ شخص کو پلایا جائے تو بجائے فائدے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ یعنی اب منفی افادہ حاصل ہونے کا امکان ہے۔
اسلام میں فضول خرچی حرام ہے۔ آپ ماہرین معاشیات کو قائل کرنے کے لیے انہی کے قانون تقلیل افادہ مختتم سے یہ ثابت کر سکتے ہیں۔ جب آپ دولت کو تعیشات کے بجائے حاجات پر خرچ کریں گے تو اس سے حاصل ہونے والے افادہ کی سطح بلند ترین ہو گی۔ اگر ایک ملک بجٹ بناتے وقت اسے اپنی ترجیح بنا لے کہ شرح سود صفر رکھے گا اور صرف دولت کے لیے بنیادی ترجیح حاجات کو دی جائے گی تو پھر نہ کوئی گالف کلب ہوگا، نہ جاگیریں اور محلات، نہ مرسیڈیزیں ہوں گی اور نہ فلاں فلاں ہاؤس، نہ مفت پیٹرول ہو گا اور نہ مفت بجلی، یعنی تقسیم دولت کا منصفانہ نظام تشکیل پائے گا اور ہر ایک کی بنیادی ضروریات پوری ہونے کی ضمانت ملے گی۔
پاکستان میں ہم نعرے لگاتے نہیں تھکتے کہ اسلامی نظام کا نفاذ ہو لیکن ہمارے اس سلسلے میں تصورات ہی واضح نہیں ہیں۔ اسلام صرف مذہب کا نام نہیں، جس میں نماز پڑھنا، دیگر عبادات کا اہتمام کرنا، روزہ رکھنا، حج کرنا شامل ہیں بلکہ دین کے طور پر یہ مکمل نظام ہے، جس کے بنیادی اصول اور قوانین تو موجود ہیں لیکن جدید عہد میں عمل کا ڈھانچہ تیار کر کے نہیں دیا گیا تاکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اجماع امت کے ذریعے اسے طے کیا جائے۔
سیاسی نظام کے حوالے سے بنیادی اصول تو طے ہیں کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پر ایک متقی، باشرع، عالم، زیرک اور دوراندیش مومن کو خلیفہ بنایا جائے۔ لیکن عہد جدید میں اس کے انتخاب کا طریقہ کار کیا اختیار کیا جائے؟ کیا موجودہ جمہوری نظام کو ہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے فیصلہ ہو؟ یا اس کے لیے کوئی اور بہتر طریقہ رائج کیا جائے؟
معاشی نظام کے بنیادی اصول تو طے ہیں کہ سود حرام ہے۔ فضول خرچی نہیں ہو سکتی۔ ایک فلاحی ریاست کے سارے تقاضے پورے کیے جائیں۔ لیکن عہد جدید میں بینکنگ کا نظام کیسے کام کرے گا؟ عالمی معاشی تعلقات کیسے برقرار رکھے جائیں گے کیونکہ دنیا بھر میں مبنی بر سود بینکنگ رائج ہے؟ آپ عالمی سطح پر دوسرے ممالک سے لین دین اور درآمدات، برآمدات کے بغیر ایک ملک کے طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ آپ کا بنک سود سے پاک ہو گا لیکن دنیا بھر میں سودی بینکاری مروج ہے۔ آپ ایل سی کیسے کھولیں گے؟ عالمی ادائیگیاں کیسے کریں گے؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آپ کی کرنسی کا نظام کیا ہو گا؟ آپ موجودہ کاغذی کرنسی کا نظام برقرار رکھیں گے یا اسے تبدیل کریں گے؟ اس بارے میں اسلامی احکام کیا ہیں؟
قدر زر یعنی کرنسی کی قیمت کے تعین کا پیمانہ کیا ہو گا؟ موجودہ طریقہ کار کے تحت سامراج نے ظالمانہ اور استحصالی جبر کے ذریعے دنیا کے مقروض ترین ملک امریکہ کی کرنسی ڈالر کو یہ درجہ اور سہولت دے رکھی ہے۔ اور جب تک یہ استحصالی اور جبری تسلط باقی ہے دنیا کے کسی ملک میں فلاحی مملکت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ بھٹو اور شاہ فیصل نے جب ان خطوط پر حکمت عملی بنانے کی کوشش کی تھی تو سامراج کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں۔ لیکن مسلمانوں نے مجاہد بہت کم اور میر جعفر اور میر صادق تھوک کے حساب سے پیدا کیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس گھر کو ہمیشہ اس گھر کے چراغ سے ہی آگ لگتی رہی ہے۔
تازہ ترین مثال لیبیا کے کرنل قذافی کی ہے۔ جن لوگوں نے اچھے وقتوں میں لیبیا میں کچھ عرصہ گزارا ہو ان کے علم میں ہو گا کہ صحت مفت، تعلیم مفت، راشن مفت، لباس مفت، گھر مفت اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بس کا کرایہ پچیس پیسے۔ لیکن سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ قذافی نے اپنا یو ایس اے (یونائیٹڈ سٹیٹس آف افریقہ) بنا لیا۔ اور اعلان کیا کہ قدر زر کا تعین ڈالر کے بجائے سونے (گولڈ) کے ذریعے ہو گا اور یو ایس اے کی کرنسی گولڈن کرنسی ہو گی۔
سامراج کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انھوں نے اپنے ایجنٹوں پر ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیے۔ جو مراعات کسی کے چشم تصور میں آ سکتی ہیں وہ پیش کی گئیں کہ جلد از جلد قذافی کو منظر عام سے ہٹایا جائے ورنہ اگر اس کا پورا منصوبہ اور وضع کردہ کرنسی کا نظام عام ہو گیا تو سپر پاور پل بھر میں بے وقعت و بے حیثیت ہو جائے گی۔ اور سامراج کا سارا تسلط قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ سو قذافی کو بہرحال منظر سے ہٹا دیا گیا۔
آج سامراج کو آپ کی عبادات سے کوئی خطرہ نہیں۔ آپ کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر اسے مسئلہ ہے تو آپ کے دین سے۔ اگر کوئی عہد جدید میں خصوصی طور پر معاشی نظام پر عملی کام کرے گا تو اس کے لیے سامراج کے مقامی پٹھو فورا حرکت میں آئیں گے ۔ پاکستان میں کئی ایسی مخلص دینی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا جو انتہائی پر امن اور علم پرور تھیں لیکن ان کا جرم یہ تھا کہ دین اسلام کے عملی نفاذ کے لیے کوشاں تھیں۔
راشد عباسی