کیا آپ بھی بوڑھے ہو رہے ہیں؟ گل نوخیز اختر کی دلچسپ تحریر

اگر آپ نے،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ھے،
لکڑی کےلٹو ڈور سے چلائے ہوں
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے،
شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ” سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے،
دو پیسے کا ٹکہ دیکھا ہو
استاد سے سلیٹ اور سلیٹی پر سوال حل کیے ہوں،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ھے،
عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے،
گھر سے مکئی کی چھلیاں دانے نکال بھنائے ہوں
سکول کی چھٹیوں میں بیل چراۓ ہوں
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سہ پہر چار بجے اٹھ کر کتاب کہانیاں پڑھی ہوں
میلے میں کبڈی اور بیلوں کی دوڑ دیکھی ہو
گراموفون اور ریکارڈ استعمال کئیے ہوں
اپنے ریڈیو کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے،
میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،
صرف عید میں میلے کی سرکس اور جھولے میں بیٹھے ہوں
بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں،
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو،
پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو،
سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو،
سردیوں میں رضائی میں گھس کر پریوں کی کہانیاں سنی ہوں،
سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں،
کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال ستی ہو،
رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو،
سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں ریڈیو کے نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے ہوۓ کمنٹری سنی ہو،
گھر کے مٹی کا لیپ والے چھت پر چارپائی ڈال کر سویا ہو ،،
گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو،
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو،
پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ،
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ھے،
ریڈیو پر غلاف چڑھایا ھے،
لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ھے،
لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ھے،
ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ھے،
تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ھے،
خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ھے،
ہولڈر استعمال کیا ھے،
زیڈ اور جی کی نب خریدی ھے،
فلاوری انگلش لکھی ھے،
گھی کے خالی "پیپے” اور رسی سے کنویں سے بالٹیاں بھری ہوں
سر پر تیل جویں مارنے کے لئے کڑوا تیل لگایا ہو۔
سرما لگا کر ہیرو لگنے کی کوشش کی ھے،
غلیل استعمال کی ھو،
پرندوں کے گھونسلے کی تلاشی لی ہو
ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ھے،
اپنے گھر میں بیری والے درخت پر چڑھ کر بیر تڑےہوں
آگ جلا کر چھلیاں بھونی ہوں،
بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں،
رف کاپی استعمال کی ھے،
کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے،
گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ھے،
الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں،
بلی مارکہ اگر بتی خریدی ھے ،
مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں،
سائیکل کی قینچی چلائي ھے،
والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں،
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ھے،
امتحانوں کی راتوں میں ” گیس پیپرز” کا استعمال کیا ہو
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہیں ،
چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں،
فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ھے،
کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ھے،
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر گڈے لوٹے ہوں
صبح سویرے لسی اور مکئی کی روٹی مکھن ڈال کر کھائی ہو۔
برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ھے،
لاٹری میں کنگھی نکلی ھے،
رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں،
سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ھے،
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ھے،
ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ھے،
شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ھے،
مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ھے،
اور صبح سویرے لسی رڑکنے کی آواز سنی ھے تو ‘ اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رھے ہیں۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں اس وقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے۔ لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ مجھے فخر ھے کہ میرا تعلق اس دور سے ھے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا (گل نوخیز اختر)