کوہسار یونیورسٹی مری کی تعلیم و ادب دُشمن سرگرمیاں

کوہسار یونیورسٹی مری کی تعلیم و ادب دُشمن سرگرمیاں
2018ء سے قبل نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی جی پی او چوک مری میں کھڑے ہو کر جو یونیورسٹی قائم کرنے کا دعویٰ کرتے رہے وہ عظیم کارنامہ تحریکِ انصاف کی تاریخ کا سنہرا باب بنا ۔ لیکن کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کام جب کِسی منصُوبہ بندی اور ماہرین کے بغیر کِیا جائے تو اُس کے نتائج تسلّی بخش نہیں ہوسکتے ، یہی کچھ تحریکِ انصاف کے عاقبت نااندیش نمائندوں کی وجہ سے کوہسار یونیورسٹی کے ساتھ ہوا جِس کی ایک جھلک درج ذیل سطُور میں پیشِ خدمت ہے ۔
تحصِیل مری و کوٹلی ستیاں کے نِجّی و سرکاری تعلِیمی اِداروں سے میٹرک پاس کرنے والے طلباء و طالبات کی سالانہ اوسطاً تعداد چار سے پانچ ہزار تک ہے ۔ مری سے ان کی اکثریت اِنٹرمیڈیٹ میں داخلے کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج(جھیکا گلی) یا گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں داخلہ لیتی تھی ، لیکن کوہسار یونیورسٹی اِنتظامیہ نے الگ عمارت بنانے کے بجائے پہلے سے موجود کالجوں کی عمارتوں پر قبضہ کرکے نہ صِرف اُن کی تاریخ اور بنانے والوں کی قُربانیوں کو مسخ کِیا بلکہ ایک مافیا کی صورت اختیار کر کے یہاں اِنٹرمیڈیٹ کلاسِز کو تقرِیباً ختم کر کے ڈِگری کلاسِز کا اجراء کردیا ۔ ہزاروں میں سے قرِیباً سو طلباء وطالبات کو داخلہ دے کر خانہ پُری کر دی گئی اور ہزاروں غریب طلباء و طالبات کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا ۔ اِس یونیورسٹی کا قیام اِس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ یہاں نہ صِرف سستی ، بامقصد و معیاری تعلیم مُیسّر ہو ، بلکہ غریب بچّوں کو مع والدین صرف تعلِیم کے لیے پِنڈی ، اسلام آباد میں کرائے کے گھروں میں نہ رُلنا پڑے لیکن یُونیورسِٹی کے قیام کے باوجود یہاں کے غریب بچے میٹرک پاس کرلینے پر بھی کالج میں داخلہ لینے کے بجائے ہوٹل ایجنٹ ، ڈرائیور ، کیمرہ مین اور سیلز میں بننے پر مجبور ہوگئے ہیں ، نیز یُونیورسِٹی کی مہنگی تعلیم میں دیہاڑی دار والدین کے لیے اب اپنی اولاد کو داخلہ دِلوانا مُمکِن نہیں رہا ۔
یُونیورسِٹی کو کامیاب حِکمتِ ِعملی کے ساتھ چلانے والوں میں یقیناً عاقبت نااندیش افراد کی تعداد زیادہ تھی جو یہ تک نہ سمجھ سکے کہ میٹرک کے بعد براہِ راست بی ایس میں داخلہ نہیں لیا جاسکتا ۔ اِس کے لیے اِنٹرمیڈیٹ کی سند ہونا ضروری ہے ۔ مرکزی تعلِیمی اِداروں میں ہائیر سیکنڈری کلاسز شروع کیے بغیر کالجوں پر قبضہ کرلیا گیا ۔ جب یُونیورسِٹی میں اِنٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کے لیے داخلوں کا راستہ ہی روک لیا گیا ہے تو بی ایس کی کلاسز میں داخلوں کے لیے اُمیدوار کہاں سے آئیں گے ؟ دوسرے شہروں سے کوئی یہاں پڑھنے آئے گا اس کی توقع رکھنا ایک اور عاقبت نا اندیشی ہوگی ۔
کوہسار یُونیورسِٹی کے عملے کی مختلف شعبوں کی بدعنوانیوں پر الگ الگ مضامین درکار ہیں جِن کا دستاویزی مُستند ریکارڈ جمع کرلیاگیا ہے جو وقتاًفوقتاً اہلِ مری اور محکمہ تعلیم کے افسرانِ اعلیٰ تک پہنچایا جائے گا ۔
ہمارا آج کا موضوع شعبۂ اُردُو میں ہونے والی نا انصافیاں اور بدعنوانیاں ہیں جو فروغِ تعلیم اور ادب پروری کے نام پر ایک بدنُما داغ ہیں ۔
کوہسار یُونیورسِٹی کا قیام 2020ء میں ہوا ۔ پہلا سیشن 2021ء میں شروع ہوا ۔ یُونیورسِٹی کے ریکارڈ کے مُطابِق یہاں قریباً ڈیڑھ درجن شعبہ جات میں تعلیم کی سہُولت موجود ہے ۔ اِنتظامیہ کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ہمارے پاس 65 پی ایچ ڈی موجود ہیں لیکن حقِیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ یہاں مُقابلہ کا امتحان پاس کر کے آنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے بلکہ ایک اور دو سالہ معاہدے(کنٹریکٹ) پر غیر تربیت یافتہ و ناتجربہ کار اساتذہ کو تعینات کیا جاتا ہے ۔ اس وقت پوری یُونیورسِٹی میں ڈیڑھ درجن سے زائد پی ایچ ڈی اساتذہ نہیں ہیں ۔ جب اساتذہ کے لیے مُستقِل تعیناتی کا تحفظ موجود نہ ہو تو کوئی بھی مُدرَّس یکسوئی سے کام نہیں کرسکتا ۔ مزید سِتم یہ کہ جب اساتذہ کی محنت اور شخصیت کو نظر انداز کیا جائے یا اُنہیں تین سے چار ماہ تک(بوجہ عدم دستیابی بجٹ) تنخواہ ہی نہ دی جائے تو ایسی یُونیورسِٹی میں کون آنا چاہے گا ؟ لہٰذا دیول گاؤں کے رہنے والے ڈاکٹر بِلال ذُوالفِقار جیسے 31 پی ایچ ڈی ڈاکٹر اساتذہ نے ایک وقت میں کوہسار یُونیورسِٹی سے ملازمت چھوڑنا ہی بہتر سمجھا ۔ اِس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یُونیورسِٹی کی ترجیحات میں تعلیم کو اوّل درجہ حاصل نہیں ہے ۔

شعبۂ اُردُو کی انچارج محترمہ جویریہ ظفر اُردُو افسانہ میں ایم فل ہیں اور اُن کی پی ایچ ڈی ابھی مُکمّل نہیں ہے نہ ہی وہ معنوی اولاد کی نعمت سے سرفراز ہو کر صاحبِ کِتاب بن سکی ہیں ۔ محترمہ پڑھانے کے فن سے مُکمّل نابلد ہیں ۔ ایم اے اور ایم فِل کرلینا آج کے زمانے میں مُشکِل نہیں رہا لیکن ایک اچھا مُدرّس وہی ہوسکتا ہے جو فطرتاً اور اُفتادِ طبع کے لحاظ سے اُستاذ ہو ۔ کوہسار یُونیورسِٹی اِنتظامیہ نے اُردُو ادب کے اُستاذ اشفاق کلیم عباسی کو بی ایس کے آخری سمِسٹر میں اُردُو پڑھانے سے روک کر کمپیوٹر سائنس اور مطالعہ پاکستان پڑھانے پر لگادیا جو پی ایچ ڈی سکالر اور اُردُو کے کہنہ مشق اُستاذ ہیں ۔ رجسٹرار یونیورسٹی نے کامَرس کالج کے سابق پرنسپل رضا منیر کی اخبار میں اعلان کے بعد اُردُو پڑھانے کے لیے تعیناتی کی لیکن محترمہ جویریہ ظفر نے غلط بیانی سے یہ کہہ کر پڑھانے سے روک دیا کہ میں سارا نِصاب مُکمّل کروا چُکی ہُوں ۔ ماہرِینِ تعلیم جانتے ہیں کہ ہمارے نظامِ تعلیم کے نقائص کے نتیجے میں ہمارے وہ بچّے جو اِنٹرمِیڈیٹ پاس کر کے آتے ہیں ، درحقِیقت اُن کا تعلیمی معیار مِڈل سکول کا ہوتا ہے ۔ ایسے بچّوں سے توقع رکھنا کہ وہ بی ایس یا ایم ایس کا مقالہ کسی بے لوث راہنمائی کے بغیر لکھ سکیں گے ، نامُمکِن ہے ۔ ذہین بچّوں کو تو راہنمائی کی بہت کم ضرُورت ہوتی ہے ، اصل حقدار تو یہ کمزور طُلباء طالبات ہوتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے اگر آپ کو من مانی کرنے والی اُستاذ محترمہ جویریہ ظفر مِل جائے جسے فیکلٹی انچارج ڈاکٹر صمد کی آشِیر باد بھی حاصل ہوتو پھِر ہم معاشرے کو ایسے ہی ادِیب اور اساتذہ دے سکیں گے جیسے ہم ڈاکٹر اور اِنجِینئر دے رہے ہیں ۔
چونکہ موصُوفہ نے خُود خدیجہ مستور کے افسانوں پر ایم فِل کر رکھا ہے لہٰذا اکثر طُلباء و طالبات کو خدیجہ مستور کے افسانوں پر ہی مقالہ لکھنے کو یہ کہہ کر تحریری طور پر پابند کیا جاتا رہا کہ اگر آپ نے کوئی اور موضُوع مُنتخِب کِیا تو اپنی کامیابی یا ناکامی کے خُود ذِمّہ دار ہوں گے ۔ دراصل دُوسرے نئے موضُوعات پر تحقِیق اور مُطالعہ سے جان چھُڑانے کے لئے اکثر طالِبات کو وہ موضُوعات دئیے گئے جِن پر پہلے سے کام ہو چُکا ہے یا اُردُو ادب میں ایسی معرُوف مُلکی اور عالمی سطح کی شخصیات کا اِنتخاب کِیا گیا جو کِسی تعارُف کی محتاج نہیں ۔ لیکِن مری کی صِرف چار شخصیات پر سات طُلباء و طالِبات نے اپنے زورِ بازُو اور ذِمّہ داری پر کام شُروع کِیا ۔
اِس وقت بی ایس اُردُو ادب کے شعبہ میں 20 طالِبات اور 04 طُلباء زیرِ تعلِیم ہیں جبکہ تحصِیل مری کی تارِیخ میں سو سے زائد ایسے افراد موجُود ہیں جِنہوں نے نظم و نثر میں اپنی مطبُوعات ادبی و عِلمی تارِیخ میں ورثے کے طور پر چھوڑی ہیں ۔ محترمہ جویریہ ظفر صاحبہ نے اِن پر مُطالعہ اور تحقِیق کی محنت سے جان چھُڑانے کے لئے اِس غیر ذِمّہ داری کا مُظاہرہ کِیا ہے۔
راقم صِرف چند افراد کا نام لِکھ کر یہ ثابت کر سکتا ہے کہ مری کے ادیب نہ صِرف مُلک گِیر سطح کے قلم کار ہیں بلکہ اُن کی تحرِیروں کو عالمگِیر سطح پر تسلِیم کِیا گیاہے ۔
1:- جناب پروفیسر علامہ مُضطَر عباسی مرحُوم ( مُترجّم قُرآنِ حکِیم ، رُکن یُونیسکو ، اور 25 کُتب و لُغات کے مُصنّف و مُرتّب).
2:- جناب پروفیسر کرم حیدری مرحُوم ( شاعر ، مؤرخ و مُترجّم ، ڈیڑھ درجن کُتب کے مُصنّف)
3:- جناب سلِیم شوالوی مرحُوم ( روزنامہ پاکِستان ٹائمز ، دِی نیُوز ، اور نوائے وقت کے نامہ نِگار اور مُلک گِیر سطح کے نامور کالم نِگار).
4:- جناب ڈاکٹر اِکرام اعظم مرحُوم ( 255 کُتب کے مُصنّف ، جِن کی کُتب غیر مُلکی جامعات کے نِصاب کا حِصّہ ہیں).
5:- جناب مُفتئ کشمِیر سیّد ضیاء الحق بُخاری مرحُوم ( مُفسّرِ قُرآن پاک).
6:- جناب لطِیف کاشمِیری مرحُوم ( درجن سے زائد کُتب کے مُصنّف ، جِن کے افسانے بِیجِنگ یُونِیورسٹی ، چِین میں شاملِ نِصاب ہیں).
7:- جناب سیّد سیفی نوگانوی مرحُوم ( 21 کُتب کے مُصنّف ، شاعر و مُصوّر ).
8:- جناب حمِید کاشمِیری مرحُوم ( معرُوف ڈرامہ نِگار).
9:- جناب جمِیل یُوسف ( معرُوف شاعر و نقّاد).
10:- جناب غُلام اصغر ( معرُوف مُصوّر ، مُصنّف و مُترجّم).
11:- جناب محبّت حُسین اعوان ( معرُوف مؤرخ و مُترجّم).
12:- جناب نسِیم عباسی ( معرُوف شاعر)
13:- جناب راشد عباسی ( پہاڑی شاعر ، نثر نِگار و مُترجّم).
14:- جناب مولانا عبدالرشید حدوٹی( مُفسّرِ قُرآن اور 150 کُتب کے مُصنّف).
15:-
یہ وہ ہستِیاں ہیں جِن کے ذِکر کے بغیر نہ صِرف مری بلکہ پاکِستان کی ادبی ، تحقِیقی و لِسانی تاریخ نامُکمّل نظر آتی ہے لیکن محترمہ جویریہ ظفر صاحبہ نہ صِرف اِن شخصیات سے ناواقِف ہیں بلکہ اُن کے نزدیک اِن کو کوئی جانتا ہی نہیں ۔ دراصل ضرُورت تو اِس بات کی ہے کہ گُمنام مگر حقِیقی مُصنّفِین کی صلاحیتوں اور تخلِیقات کا اعتراف کِیا جائے ۔ مشہُور لوگوں سے تو ادبی و تحقِیقی تاریخ بھری پڑی ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جویریہ ظفر نے اپنے اِنتخاب میں شعراء کو کِیُوں نظر انداز کیا ؟ اور نہ ہی ہمیں زُبانِ زدِ عام اِس بات پر اعتراض ہے کہ آپ نے کوہسار یُونِیورسٹی کی طالِبات کے مقالہ جات کمپوزِنگ کے لئے اپنی شاگِردوں اور دوستوں کو مُلتان میں بھیجے ، بلکہ ہمیں تو یہ اعتراض ہے کہ مری کے جِن بچّوں کی وجہ سے اللّٰہ پاک نے آپ کی روزی اور مرتبے کا اِنتظام کر رکھا ہے ، آپ نے اپنی کم عِلمی کے باعث اُنہی کے مشاہِیر کو نظر انداز کرنے کا جُرم کِیا ہے۔
کوہسار یُونِیورسٹی کی فیس بُک پر آئے روز دو درجن افراد کے ساتھ کِسی نہ کِسی بے نتِیجہ سیمِینار یا ورکشاپ کا ذِکر دیکھنے کو مِلتا ہے لیکِن جب ایک مرکزی تعلِیمی اِدارہ فُوڈ فیسٹِیول اور چِکن کانفرنس مُنعقد کرتا ہے تو اُس کی تعلِیمی ترجِیحات نِکھر کر سامنے آ جاتی ہیں کیُونکہ ایسی ہی عاقبت نا اندیشیوں کے باعث شعبۂ سیاحت بھی ناکامی سے دوچار ہُوا ہے۔
وائس چانسلر کانفرنس کا اِنعقاد ہو یا فرنِیچر اور موٹر سائیکلوں کی خریداری ، کوہسار یُونِیورسٹی میں گھپلوں کا مُطالعہ عنقرِیب آپ پر یُونِیورسٹی کی تعلِیمی ترجِیحات کا راز کھول دے گا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر سیّد حبیب بُخاری کی غیر ذِمّہ داری اور تعلِیمی ترجِیحات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بی ایس کے لئے لِکھے جانے والے مقالہ جات کا اوّلِین مرحلہ (Synopsis ) اکتُوبر 2024ء میں جلد بازی میں طے ہُوا ، 16 دسمبر کو مقالہ جات مُکمّل کر کے جمع کروانے کی آخری تاریخ دِی گئی اور ماہ فروری 2025ء گُزر جانے کے بعد بھی ابھی تک مقالہ جات کو پڑتال کے بعد کِسی ماہر پروفیسر نے منظُوری نہیں دی ، کیُونکہ دُوسرے شہروں سے کوئی ذِمّہ دار پروفیسر آنے کو تیّار نہیں جبکہ مقامی ماہرِین کو اِس لئے نہیں بُلایا جا رہا کہ وہ حقِیقت جانتے ہیں لہٰذا اُن سے دئیے گئے موضُوعات منسُوخ ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر یُونِیورسٹی اِنتظامیہ کے دعووں کے مُطابِق مان لِیا جائے کہ یہاں بی ایس کے مُختلِف پندرہ شعبوں میں تعلِیم دی جا رہی ہے تو اِن میں کامیاب ہونے والے طُلباء و طالِبات کی ایم فِل کلاسِز کا اِنتظام کِیُوں نہیں کِیا گیا ؟ اگر یُونِیورسٹی تعلِیم کے لئے دُوسرے شہروں میں ہی جانا ہے تو یہ نامُکمّل یُونِیورسٹی کِیُوں بنائی گئی ہے ؟ حقِیقت یہ ہے کہ جِس یُونِیورسٹی میں دیہاڑی پر اساتذہ بھرتی کِیے جائیں وہاں کی تعلِیم کا یہی حال ہو سکتا ہے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر بُخاری اپنے اللّوں تللّوں کے باعث سارے تعلِیمی نِظام کا بِیڑا غرق کر کے جا رہے ہیں اب آنے والے وائس چانسلر کے لئے ایک کڑا اِمتحان ہے کہ وہ تعلِیمی ترجِیحات طے کریں اور کام کر کے دِکھائیں ، کِیُوں کہ تعلِیمی اِدارے دعووں سے نہیں بلکہ زِندگیاں وقف کرنے سے آباد ہُوا کرتے ہیں ۔ یہ اِمتحان اہلِ مری ، صحافیوں اور سیاسی نُمائندوں کا بھی ہے کہ وہ یُونِیورسٹی اِنتظامیہ کی طرف سے پی سی بھُوربن ، ٹیرس گرِل اور گورنر ہاؤس میں دِی جانے والی پُر تکلُّف دعوتوں اور پروٹوکول سے مسرُور ہونے کے بجائے اہلِ مری کے بچّوں کے تعلِیمی مُستقبل کو اپنی ترجیح بنائیں۔