
"کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت”
تحریر۔ام عزوہ
"اٹھارہ ہزار تنخواہ ہے۔۔۔”کہہ کر آنکھیں لبالب بھر جاتی ہیں۔اور چہرے پر وہ کرب اتر آتا ہے، جسےضبط تحریر میں لانا کسی طور ممکن ہی نہیں۔بس دل کے تار درد کے احساس سے ایسی دھن ترتیب دیتے ہیںجو آنکھوں سے اشکوں کی صورت بہتی ہے۔ سماعتوں میں کرب کا سیسہ بن کر اترتی اور روح کی گہرائی میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ میں نے حساس دلوں کی بات کی ہے۔۔۔سنگ دلوں کا کیا۔۔۔جن کی وجہ سے خواب بے موت مر جاتے ہیں۔
آنکھوں سے خواب گر جائیں اور مایوسی زیست پر اپنے پنجے گاڑے تو موت بلا نہیں "امید” بن کر دیدوں میں جگمگانے لگتی ہے اور آج آپ کو اپنے ارد گرد چار سو یہی مناظر دکھائی دیتے ہیں، بس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل چاہئے۔
مہنگائی کا جن بے قابو تو پہلے ہی تھا اب لوگوں کی جان کے درپے ہے، بلکہ مسلسل جانوں کی بھینٹ لیتا جا رہا ہے۔۔اٹھارہ سے بیس ہزار کمانے والوں کا بجلی کا بل دس سے بارہ ہزار آرہا ہے۔صرف ایک پنکھا اور ایک فریج ہی ان کی زندگی پر بھاری پڑ رہا ہے۔۔۔سفید پوشی کی چادر لیرو لیر ہونے سے بچانے کے لیے وہ سفید پوش کبھی بچی کے کان کی بالی بیچتا ہے،توکبھی گھر کی کوئی اور چیز۔۔لیکن آخر کب تک۔۔؟؟چند مہینوں میں ہی وہ وقت آ جائے گا جب گھر کا کوئی سامان فروخت کے لیے باقی نہیں بچے گا۔سوائے اپنے گردوں کے،جس کی لوگ بازار میں بولی لگائیں گے۔۔۔مگر یہ سلسلہ تو چل رہا ہے، گردے تو کیا لوگ اپنے بچے فروخت کرنے لگے ہیں، آپ ہر کہانی کو جھوٹ قرار دے کر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔
غریب آدمی غربت کی چپیڑیں کھاتے کھاتے خودداری کے بوجھ سے تھک ہار کر پکار اٹھتا ہے۔۔۔”اللہ یار کتھے ہیں تو۔۔۔مینڈے نکے نکے بچے نے۔۔ میں انہاں نوں کی کھواواں۔۔؟ ترس؟؟؟” یہ ایک رکشہ ڈرائیور کے الفاظ ہیں جو روح کو چھیدے چلے جا رہے ہیں۔۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔
آسمان پر جگمگاتے چاند سے دل بہلاتے اس رکشہ ڈرائیور کے بچے۔۔ جس کے رکشے کی بیٹری بھی چوری ہو جاتی ہے، پوچھتے ہوں گے چاند سے۔۔ "تم زیادہ خوبصورت ہو یا گول روٹی۔۔۔”؟
جن کے لیے بھی وطن عزیز میں دو وقت کی روٹی سب سے اہم مسئلہ ہے۔۔۔جن کے لیے بل سب سے خوفناک حقیقت ہے۔ان کے شب و روز انہی سوچوں میں گزرتے ہیں۔۔۔ان لوگوں کے دلوں کی حالت کا اندازہ کیجئے۔۔۔کہ اگر کبھی ان کے نزدیک زندگی کی کچھ امنگیں کچھ خواب اور حسرتیں تھیں۔۔، وہ مر چکیں۔۔وہ خود بھی اندر سے مر چکے۔اعلانیہ موت کے لیے بس کبھی کبھار بجلی کے تاروں یا چھت کے پنکھے سے جھول جاتے ہیں۔
اذیتوں کی صلیب پر لٹکا وجود کہاں سے لائے وہ امنگ جس کے سوچنے سے پہلے اندھیرے مسلط نہ کر دیے جائیں۔۔
جب موت کو جھٹک کر وہ دعا کی طرف آئیں اور پھر مسجدوں میں اس طرح کی پرچی آنے لگے۔۔”امام صاحب دعا کرا دیں مہنگائی ختم ہو جائے۔۔کبھی کھانا کھاتے ہیں کبھی نہیں بھی کھاتے”
حساس لوگوں کے دل ان دو فقروں پر پھٹنے لگیں اور زمہ داروں کے حرام کی کشش سے قفل لگے دلوں پر رب کی طرف سے بھی مہر لگ جائے ۔تو قیامت کے انتظار کے ساتھ اپنے حق کے لیے نکلنے کے لیے بھی وقت نکالیے۔۔۔وہاں تو پکڑیں گے ہی سہی لیکن ادھر بھی آواز اٹھانا اور زندہ ہونے کا ثبوت دینا ضروری ہے۔۔۔
ان قفل ذدہ دلوں پر دستک دیجیے۔۔۔اٹھیے اور آواز بلند کیجیے کہ تقدیر بھی انہی کا ساتھ دیتی ہے،جو آواز اٹھاتے ہیں۔۔۔۔جن کے لبوں پر قفل نہیں ہوتے۔۔۔جن کی سوچوں پر پہرے نہیں ہوتے۔۔ورنہ غریب کے خواب یونہیہ اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔۔
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں ، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
کلبہ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانےمیں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے
قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں