کتب میلے نے کراچی میں قوس قزح کے رنگ بکھیر دیئے
صبیغ ضو
ادب ایک سمندر ہے جو اپنے اندر انوکھے سیپیوں جیسی رنگ برنگی تخلیق کو سموئے ہوئے ہے۔ تخلیق کار کا کینوس سمندر جیسا وسیع ہے اس کینوس پر ہر رنگ جاذب نظر ہے اور ان رنگوں سے محبت کرنے والے بھی تتلیوں کی طرح ان کی تلاش میں نگر نگر اڑتے پھرتے ہیں۔۔۔۔
کراچی ایکسپو سینٹر بھی قوس قزح جیسے رنگوں کے ساتھ آج کل اپنا جوبن دکھا رہا ہے۔یہاں سجنے والے کتب میلے کی شان ہی الگ ہے۔۔ چاہنے والے جوق در جوق ایکسپو سنٹر آ کر کتب میلے کی شان بڑھا رہے ہیں۔ یہ احساس کسی بھی ادیب،شاعر یا علم دوست انسان کی روح کو سرشار کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس کے آس پاس بسنے والے لوگ کتاب سے محبت کرتے ہیں اور اسے علم اور روحانی توانائی کشید کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
گذشتہ برس کی طرح الحمدللہ اس بار بھی میری فیبرک بک نے کتب میلے میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔۔۔یہ ایک آرٹ بک ہے جو بچوں کو ٹی ؤی،کمپیوٹر اور موبائل کی اسکرین سے ہٹانے کے لیے معاون ثابت ہو رہی ہے۔اس میں بچوں کی دلچسپی کے متنوع کھیل ہیں اور الحمدللہ۔۔۔۔بچے اس کتاب کو بے حد پسند کر رہے ہیں۔
ہم ہر روز تو سٹال پر موجود نہیں ہوتے تھے مگر ہر سال ایک چکر ضرور لگتا ہے کہ کتابوں کی خوشبو کھینچ کر لے آتی ہے۔ اور پھر اپنے اردگرد کتاب سے محبت میں مبتلا کراچی والوں کو دیکھ کر بڑا اچھا لگتا ہے۔ گویا ہر طرف علم و ادب کی خوشبو سے معطر روشن چہرے اور چمکدار آنکھیں ایک سماں باندھ دیتی ہیں۔
خیر اس سال بھی ہم نے کتب میلے میں شرکت کی تیاری کی۔ اتوار کی صبح سویرے اٹھے، بچوں کو تیار کیا،ساتھ ان کے ابا کو بھی اور نکل پڑے۔۔اپنی سواری باد بہاری نہیں تو رکشہ زندہ باد۔۔۔پہنچے ایکسپو سینٹر۔۔ہال نمبر ایک میں اپنے اسٹال پر سب سے پہلے پہنچے۔۔۔رش تھا۔۔۔اور بھی مختلف کتابیں تھیں۔۔۔گاہک بن کر چپ چاپ کھڑے رہے۔۔بہت اچھا لگا اس وقت۔۔۔ جب ایک بچی کو دیکھا کہ ہماری ہی ایک کتاب کے لیے ماں سے ضد کر رہی تھی اور مما غالبا” کتابیں خریدتے بجٹ آؤٹ کر چکی تھیں، بچی کو بہلا کر آگے لے گئیں۔۔ہم آواز ہی دیتے رہ گئے۔۔
اتنی دیر میں اسٹال کی منتظم رابعہ ہمیں پہچان چکی تھیں۔۔تپاک سے ملیں۔۔۔خریداری کرنے والوں میں گھری کافی مصروف تھیں۔۔ہم نے ان کی خالہ کے ساتھ تصویریں بنوائیں ۔۔کچھ دیر ٹھہرے پھر اجازت لی۔۔باقی اسٹالز کا چکر لگایا۔عاسل کے لیے کچھ کتابیں لینی تھیں،۔۔۔اندازہ ہوا کہ کئی سٹالز میں اصل قیمت کو چھپا کر اسٹیکر سے نئی قیمت ثبت کی گئی تھی۔ اصل کے مقابلے میں بہت زیادہ قیمت۔۔اور وہیں کچھ ایسے سٹالز بھی تھے۔۔ خاص کر ہال نمبر دو میں عمیر اور مسلم انصاری صاحب کا بک کارنر۔ وہاں سے کتاب لی۔ اصل قیمت کتاب میں 500 تھی اور ملی ڈسکاؤنٹ کے ساتھ 300 روپے میں۔ایسے اور بھی کچھ اسٹالز تھے۔
مسلم انصاری بھائی کی کتاب "قابوس” کی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ خریدنا چاہتی تھی کہ انہوں نے بصد اصرار ہدیہ کر دی اور رقم لینے سے انکار کر دیا۔چند افسانے پڑھ کر ہی اندازہ ہوا کہ ایک حساس لکھاری کے درد دل سے لکھے افسانے پڑھ رہی ہوں۔جہاں کتاب کا نام چونکا دینے والا ہے۔وہیں تحریر کی بے ساختگی اور حقیقت کی پرچھائی لیے افسانے کہیں کہیں آپ کی آنکھیں بھی نم کر دیں گے۔۔
خیر ہم نے کتاب کے ساتھ تصویر لی۔۔وہ تو شکر ہے ہم نے احتیاطا” وہیں اسکرین پر تصویر دیکھ لی۔۔۔اور ایک خوفناک انکشاف ہوا کہ ہم تو اتنی دیرسے الٹا پرس لٹکائے گھوم رہے ہیں۔۔۔یہ کیا تھوڑی دیر پہلے تو سیدھا ہی پکڑا ہوا تھا، لگتا ہے پیسے نکالتے ہوئے اور عزوہ کے تنگ کرنے پر یہ احمقانہ حرکت بے ساختگی میں سرزد ہوگئی تھی۔۔شکر ہے وہیں تصویر چیک کرنے کا فائدہ ہوا اور بروقت ہم اپنے اوندھے منہ ہوئے پرس کو ٹھیک کر کے اس "فنی” کیفیت سے نکل آئے۔ساتھ ہی عمیر کی چائے کی آفر کو پھر کبھی پر ٹال کر کئی جانے پہچانے فیس بک خواتین و احباب کو دیکھتے ہوئے بنا تعارف کرائے چپ چاپ خراماں خراماں ہال سے نکل آئے ۔یوں اس سال بھی کتب میلے کا وزٹ یادگار ٹور رہا۔