top header add
kohsar adart

کالم شالم ۔۔۔ ”مخے کیہہ آخاں؟“

کالم شالم ۔۔۔۔۔ ”مخے کیہہ آخاں؟ “

 

آج تک جو ہم نے کالم شالم کی صورت پوسٹا اُس کو آپ نے برداشت کیا، یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ آپ کی حوصلہ افزائی کی ہم داد دیتے ہیں کہ اس سماج میں سچ لکھنا بہت "اوخا” کام ہے۔ ہم حتی الوسع سیاسی ومذہبی موضوعات پر نہیں لکھتے کہ ”ڈڈاراں نے کُپے“ میں کون ہاتھ ڈالے۔ ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ تحمل، برداشت اور رواداری اب صرف ڈکشنری میں ہی موجود ہیں۔ آج جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہر سمت ہماری روایات و اقدار کے مزار نظر آتے ہیں۔ خاندانی نظام بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہے۔ حلال حرام میں تفاوت عنقا ہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز قصہ پارینہ ہو چکی۔ دکھ ہوتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم بت خانوں میں بھگوان بن کر بیٹھے ہیں۔

ہماری تربیت من حیث القوم {اگر واقعی ہم کوئی قوم ہیں} ایسے طریق پر ہوئی ہے کہ سامنے والا کتنی ہی دلیلیں پیش کر کے اپنا نکتہ نظر درست کیوں نہ ثابت کر دے، ہمارا ”کاں چٹا “ ہی رہتا ہے۔ ہمارا سماج بری طرح جمود کا شکار ہے۔ یہاں منظم انداز میں اور ادارہ جاتی بنیادوں پر سچ کو چھپایا اور جھوٹ کو پھیلایا جاتا ہے۔

حالانکہ ” نکا کاکا“ کوئی نہیں ہوتا، بالخصوص اس دور میں جب ”انہی (آندھی) وی سرمہ سٹنی ویہہ“ مگر ہم اپنے بتوں کی پرستش میں اتنے کھو چُکے ہیں کے ہماری عقل شریف ماؤف ہو چُکی ہے۔ اگرچہ یہ علم اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے لیکن ہم پر ”ککھ“ اثر نہیں ہو رہا۔ ہم آج بھی "آوے ہی آوے” اور "جاوے ہی جاوے” کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔

یاد آیا ۔۔۔۔ ایک بار ہم لائل پور میں سٹیج پر تھے کہ ہم نے ماہیے کا پہلا مصرح ”چھڑکایا“۔ ۔۔۔۔۔

ٹانگے دیاں گدیاں نی

تو سامعین میں سے ایک ستم ظریف نے آواز لگائی کہ ”ماما تانگے تے رضائیاں ہوون“۔

ہم نے سوچا کہ اتنی ذہین جنتا کی یہ حالت کیسے ہوئی؟غور کرنے پر سمجھ آئی کہ ہم "عوام” نے ریاست شغلیہ کو یہاں تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے. ہماری پسماندگی اور پستی میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی ہاتھ ہے۔ یہی عوام اپنے گھر کے لیے اگر ایک کلو امرود لیتے ہیں تو ریڑی پر ایک گھنٹہ چھان بین پر لگا دیتے ہیں مگر جب مُلک کی بھاگ ڈور دینے کا وقت آتا ہے تو ”جو جمایا لُچ لفنگ“ ہو، ووٹ اُسی کو دیتے ہیں۔ ایسا دنیا کے کسی اور ملک میں کہیں ہوتا ہے کیا؟

آج کل ہمارا لکھنے کو من نہیں کرتا کہ جہاں الفاظ اپنی معنویت کھو دیں، ہر کس و ناکس کے نام کے ساتھ علامہ لکھا جائے وہاں علم، انسانیت، شرافت اور آگہی کی بات کرنا دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ کچھ دن پہلے ہم دارالخلافہ میں رات کے پچھلے پہر ایک چوک سے گزرے تو ناکہ لگا ہوا تھا۔ ایک پولیس مین نے اشارہ کیا کہ گڈی روکو۔ ہم نے "فٹ سے” گڈی روک دی۔ وہ ہمارا منہ سونگھنے لگا۔ ہم ہنس دیے، ہم چُپ رہے اور پھر کہا،۔۔۔۔۔

” میاں! جب ہم باقاعدہ دوا لیتے تھے تو کبھی کسی نے نہ منہ سونگھا” اور نہ ہی روکا۔ جب توبہ تائب ہو گئے تو آپ کو یاد آئی”.

ہم یوں بھی گنگنا رہے تھے کہ "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” اور وہ کچھ نہ سمجھا۔ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا کہ شناختی کارڈ دکھائیں۔ پہلے ہم نے سوچا ماما سواتی کا مصرع چُھڑکائیں

ساڈے کول کیہڑے ننگا کاڈ شاڈ ہوندے نیں
ساڈے کول نرے مُرے لاڈ شاڈ ہوندے نیں

پھر سوچا کہیں یہ ہمیں بھی وہ مظلوم مخلوق نہ سمجھ لے، اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اصلی شہری و باشندہ ہونے کا ثبوت یعنی شناختی کارڈ پیش کر دیا۔ ہمارا کارڈ دیکھ کر بولا کارڈ تو شکیل اعوان گلوکار کا اُٹھایا ہوا ہے مگر آپ لگتے تو نہیں ہو ؟

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ہم نے عرض کیا،۔۔۔
"جناب ! ایک تو ٹھنڈ شریف ہے اس لیے ہم نے کن سر لپیٹے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہماری رام پیاری جیپ آپ کے سامنے ہے جس کا ہم مکینک سے کام شام کروا کر لوٹ رہے ہیں۔ ” پینڈا مُچ لماں اے“۔

وہ خالص تلہ گنگی بولی میں بولا، ۔۔۔۔
"ذرا باہر تو آئیں جناب”

ہم سمجھے پلس بادشاہ ہے، تلاشی لے گا۔ شاید بُوٹی شوٹی ڈھونڈے۔ مگر اُس نے ٹچ موبائل نکالا اور ایک سیلفی لینے کے بعد چائے پانی کی پرخلوص پیش کش کی۔ ہم نے شکریہ ادا کیا کہ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکے تھے۔ اجازت لے کر ہم نے ”گڈی چوتھے وچ پٹی“ تے ڈاک و ڈاک خانپوری روڈ پر ”سٹ دی“ اور اپنا ہی گیت لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔

پیشہ ڈریوری اے، روڈاں دے بادشاہ آں

جب گھر پہنچے تو ” کُکڑ بانگاں دینے سے، مخلوق نکُوک سُتی سی“ جیسے ستتر سال سے سوئی ہوئی ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو لگتا ہے صُور پھونکے جانے تک سوتی ہی رہے گی۔

وما علینا البلاغ !۔

شکیل اعوان ۔۔۔۔۔ ایبٹ آباد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More