کالم شالم ۔۔۔۔ ”نصف ایمان “
کالم شالم ”نصف ایمان“
ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے ساتھ ہی ہماری طبیعت ”مندلی“ ہونے لگی کہ ہم اتنی صفائی ستھرائی کے عادی جو نہیں ہیں۔ چاروں اطراف ماحول صاف ستھرا اور انسان دوست۔ صاف ہوا پھیپھڑوں کو تازگی دیتی ہوئی۔ خیر ہم نے دل کو تسلی دی کہ اے دل ناداں بس مہینہ ہی تو ہے صبر شُکر کر ۔۔۔ پھر وہی اپنا دیس، وہی گندگی کے ڈھیر وہی طرح طرح کی آلودگی۔
یہ گورے لوگ چونکہ دوزخ میں جائیں گے، اس لیے صفائی رکھتے ہیں کہ دوزخ میں صاف ستھرا ہو کر جانا پڑتا ہے۔ جہاں پر لندن میں ہماری سکونت ہے وہاں بھی دوزخی آبادی ہے۔ حرام سُور جو کہیں سڑک پر، گلی میں، پارک میں، کہیں بھی ذرہ برابر گندگی نظر آتی ہو۔ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ یہی نا کہ اتنی صفائی دیکھ کر ہم بیمار پڑ جائیں ؟
ان نکھتروں کو اگر دوزخ ہی جانا ہے تو اتنی تیاری کاہے کی؟ اور چونکہ ہم بائی برتھ جنتی لوگ ہیں اس لیے تن آسان ہو گئے ہیں اور اتنی ”کھینی“ کے قائل نہیں کہ صفائی ستھرائی میں جان کھپائیں۔ ہم جب جنت میں پہنچیں گے تو فرشتوں کی ڈیوٹی ہو گی کہ ہمیں غسل شسل کروا کر، عطر شطر لگا کر تیار کریں کہ وہاں چھ درجن حوریں منتظر وصال ہوں گی۔
ہمارے ایک دوست فرما رہے تھے کہ کل کچھ مسلمان شرابی رات گئے” فُل ٹُن“ حالت میں گرتے پڑتے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اور حلال کھانا نہ ملنے پر شور شرابہ کرتے پائے گئے؟
ہم نے اپنے ایک مذہبی دوست سے یہاں پوچھا،
"ہمارے دین میں صفائی نصف ایمان ہے؟ جھوٹ بولنا گناہ ہے؟ کم تولنا گناہ ہے؟ بے انصافی گناہ ہے؟ ریاست کے وسائل لُوٹنا گناہ ہے؟”
اس نے بلا تامل جواب دیا، ” آپ بجا فرما رہے ہیں”
میں نے دست بستہ عرض کیا،
"تو پھر غیر مسلم جو یہ سب گناہ نہیں کرتے وہ دوزخی کیوں؟ اور ہم جو ان سب گناہوں میں گٹے گوڈوں تک لتھڑے ہوئے ہیں ہم جنت کے غیر مشروط طور پر حقدار کیوں؟”
انگلیاں دنداں وچ دے کے بولے…” جنیاں! توں میکی وی مرواسیں“
” نورپیر نے ویلے “ پارک میں جائیں تو ہر گورا گوری
خوبصورت سمائل کےساتھ گڈمارننگ کہیں گے۔ ” بندے دی چشم روشن تے دل شاد ہو جاندا اے“۔ جب کہ ہمارے ہاں صبح صبح لوگوں کے منہ شریف ایسے چڑھے ہوتے ہیں جیسے ابھی قتل کردیں گے۔ مسکراہٹ سے تو جیسے ہمیں اللہ واسطے کا ویر ہے۔
خیر ہم حلال کھانا ڈھونڈنے ایک ٹک شاپ پر گئے، جو مکمل گوری کی تھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ انگریزی پر مکمل عبور کے کارن پہلے بھی دو چار گوریاں گورے ہم بے ہوش کر چُکے تھے۔ ہم نے حلال فوڈ طلب کیا، جو نہیں ملا۔ مجبورا ہم نے بسکٹ شسکٹ اور کافی شافی لے لی۔ جب ہم نے دوکاندار سے کہا کہ بلھےشاہ یا غلام فرید کی کافی کا مقابلہ دنیا کی کوئی کاپوچینو نہیں کر سکتی تو وہ ” آنیں کڈھ کے اور ٹاٹرا“ ہو کر کافی دیر تک ہمیں دیکھتا رہا۔ ہم ”باہر بیئ کھاؤ“ کے اصول پر چلے اور جب کھا پی کر باقی ماندہ کچرا ٹھکانے لگانے کا وقت آیا تو سامنے لیٹر بکس کو ڈسٹ بن سمجھ کر اس میں ڈالنے ہی والے تھے کے ایک گورے نے آواز دی
Hey ! Man. This is not dust bin, this is letter box
” ایہہ مین! دس از ناٹ ڈسٹ بن، دس از لیٹر باکس”
ہم نے ”ہالا ہالا“ کر کے کہا
”آئی ایم فل سمجھینگ ناؤ۔ پلیز نو مور تراہ کڈنگ “
جس پر وہ مسکرا کر چلا گیا۔
ہمارے ساتھ تو روز ہی لطائف ہو رہے ہیں۔ پارک میں بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے ”دوّک “ ہوکر گرے تو ایک بوڑھی گوری ماسی نے اُٹھایا اور بر زبان انگلش بولی،
Man! seems you are not fit to play football
"مین ! سیمز یوء آر ناٹ فٹ ٹو پلے فٹ بال “
اس کا پہاڑی میں مفہوم کچھ ایسے ہے
”بڈھی منج تے کٹیاں نال سنگ “
یہاں کی سب خوبیوں سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں پر نظر نہیں رکھتے۔ کوئی ننگا ہو یا لباس میں، کسی کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ یہاں فقط ہمارے ریجن کے لوگ ہی آنکھوں سے ایکسرے مشین کا کام لیتے ہیں۔ گورے تو پُر باش لوگ ہیں۔
ہماری طرح یہ معاشرے بھی کبھی فرقہ پرستی، عدم برداشت، تعصبات اور فسادات کا شکار تھے۔ پھر کچھ اعلی دماغوں نے انسانوں کو مذہبی جنونیوں سے مُکت کروانے کا سوچا اور پھر مذہبی فرقوں کو ریاستی امور سے بے دخل کردیا۔ مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا۔ تب جا کر اس سماج نے اوج ِ کمال حاصل کیا۔ آج یہ رواداری میں دنیا بھر میں مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں ہر رنگ نسل مذہب کا انسان سکون سے زندگی گزارتا ہے۔ تعلیم، صحت مفت سمجھیں۔ اگر گھر نہیں تو ریاست دیتی ہے، روزگار نہیں تو وہ بھی ریاست فراہم کرتی ہے یا وظیفہ دیتی ہے۔ وزیر اعظم سے مزدور تک کے حقوق برابر ہیں۔ عملی طور پر (اگر فتوی نہ لگائیں تو کہوں) کیا یہی ریاستِ مدینہ کا نمونہ نہیں ہے؟
آپ اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں مگر دوسرے کو آزار دیے بغیر۔ یہی تو اسلام بھی کہتا ہے۔ سوچیں ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں ڈی ٹریک یا ہائی جیک کیے ہوئے ہیں؟؟؟؟؟
شکیل اعوان ۔۔۔۔۔۔۔ لندن